کشمیری مظاہرین کی جانب سے پھینکا گیا پتھر سیاح کی جان لے گیا
8 مئی 2018
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مظاہرین کی جانب سے پھینکے گئے پتھر نے ایک نوجوان بھارتی سیاح کی جان لے لی ہے۔ دوسری جانب اتوار کوبھارتی افواج کی فائرنگ کا نشانہ بننے والا کشمیری نوجوان ہسپتال میں دم توڑ گیا ہے۔
اشتہار
نیوز ایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق بھارتی سیاح کا تعلق تامل ناڈو سے تھا۔ وہ اپنے والدین کے ساتھ کشمیر کے سیاحتی دورے پر آیا ہوا تھا۔ گزشتہ شب، جب وہ اور اُس کے والدین مقامی گاؤں سے لوٹ رہے تھے تو قریب ہی احتجاج کرنے والے مظاہرین کی جانب سے ایک پتھر ان کی ٹیکسی کا شیشہ توڑتے ہوئے اس نوجوان سیاح کے سر پر لگ گیا۔ اس بائیس سالہ سیاح کو سری نگر کے ایک ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گیا۔ مقامی پولیس افسر نذیر احمد کے مطابق مظاہرین اور بھارتی افواج کے درمیان گزشتہ روز سارا دن جھڑپ جاری رہی۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسندوں اور کشمیر کے حمایتی سیاست دانوں نے اس سیاح کی ہلاکت پر دکھ کا اظہار کیا ہے ان میں وادی کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بھی شامل ہیں جنھوں نے اس سیاح کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں انتظامیہ نے کشمیر میں سیاحت بڑھانے کے غرض سے بھارتی زیر انتظام کشمیر کو پر امن ظاہر کرانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن گولیاں چلانے کے واقعات، بھارت مخالف مظاہروں اور مغربی حکومتوں کی جانب سے ان کے شہریوں کو کشمیر جانے سے روکنے کی ہدایات نے یہاں سیاحت کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
10 تصاویر1 | 10
اس تناظر میں منگل کو دکانیں، دفاتر اور اسکول بند رہے۔ اتوار کو بھارتی افواج کے ہاتھوں شوپیاں کے مقام پر گولی لگنے سے نشانہ بنائے جانے والا ایک نوجوان منگل کو سری نگر کے ہسپتال میں ہلاک ہو گیا۔ اتوار کو بھارتی افواج کی جانب سے فائرنگ کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوگئے تھے۔ بھارتی فوجیوں نے شوپیاں میں ان بھارت مخالف مظاہرین پر فائرنگ کی تھی جو اس مقام پر جانا چاہ رہے تھے جہاں بھارتی فوجیوں نے پانچ جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس لڑکے کی ہلاکت کی خبر کے بعد اس کے گاؤں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ پولیس کی جانب سے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں چلائے جانے سے چار افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔
بھارت اور پاکستان دونوں کشمیر کے دو مختلف حصوں کو کنٹرول کرتے ہیں لیکن دونوں ہی کشمیر کو اپنی سرزمین کاحصہ سمجھتے ہیں۔ سن 1989 سے وادی میں باغی بھارتی حکومت کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ یا تو یہ پاکستان کا حصہ بنائے جانے کا مطالبہ کرتے ہیں یا پھر خود مختار ہونا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر نائلہ علی خان سے ڈی ڈبلیو کی گفتگو
03:47
گزشتہ چند برسوں میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ خصوصی طور پر جنوبی حصے میں عسکریت پسندی کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی ہے اور وہ نئی دہلی کی رِٹ کو بندوقوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے چیلنج کر رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق زیادہ تر کشمیری عسکریت پسندوں کے مشن کی حمایت کرتے ہیں اور سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں میں حصہ بھی لیتے ہیں۔ اب تک ستر ہزار افراد کشمیر کی تحریک میں ہلاک ہو چکے ہیں۔