1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیری نوجوانوں میں منشیات کا بڑھتا ہوا استعمال

3 جولائی 2021

چند برس قبل تک جموں و کشمیر میں والدین بانہال تحصیل کے رہنے والے اعجاز احمد کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے تھے۔ آل انڈیا انجینئرنگ کے مشکل ترین امتحان میں کامیابی حاصل کر کے اس نے واقعی والدین اور علاقے کا نام روشن کیا تھا۔

 DW Urdu Bloggerin Farhana Latief
تصویر: privat

مگر جلد ہی بدقسمتی نے اس کو اور اس کے خاندان کو گھیر لیا۔ پراسرار حالات میں اس کے والد کی موت ہوئی اور اس ناگہانی افتاد کی وجہ سے اعجاز کو دل کا مرض لاحق ہو گیا۔ غم کو دھوئیں میں اڑانے کے لئے اس نے پہلے سگریٹ اور بعد میں نشہ آور چیزوں کا استعمال کرنا شروع کر دیا۔ پڑھائی چھوٹ گئی اور نشہ آور ادویات کا استعمال بھی دن بدن بڑھتا گیا۔ سری نگر کے ایک بحالی مرکز میں اب اعجاز کے نام پر بس ایک ہڈیوں کا ڈھانچہ بیڈ پر اپنے آخری دن گن رہا ہے۔ اعجاز کی ہی طرح کی بے شمار کہانیاں کشمیر کے طول و عرض میں بکھری پڑی ہیں۔

شورش اور سماج میں بے چینی کا نشے کی لت کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے۔ پچھلی تین دہائیوں سے شورش زدہ کشمیر میں نہ صرف ذہنی امراض میں اضافہ ہوا ہے بلکہ نشہ آور ادویات کے استعمال میں بھی بے تحاشہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ آئے دن سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن، تلاشی آپریشنز اور اپنے ہی گھر میں ان کی طرف سے بے عزت ہونے کا غم کشمیریوں بلکہ خاص طور پر نوجوان طبقے کو نشے کی طرف دھکیل رہا ہے۔

ان کو شاید یہ نہیں معلوم کہ جس طریقے سے وہ غم سے فرار حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ ان کی زندگیوں کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔ چھبیس جون کو جب پوری دنیا کی طرح کشمیر میں انسداد منشیات کا عالمی دن منایا گیا، تقریریں کی گئی، حکام کے پیغامات نشر کیے گئے تو میں ایک کشمیری کی حیثیت سے یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ پچھلے سال بھی تو ایسے ہی پیغامات میرے کانوں تک پہنچے تھے اور اس ایک سال میں کیا تبدیلی آئی ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنس سری نگر کی سالانہ رپورٹوں اور اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسداد منشیات و جرائم کے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ کشمیر میں غیر قانونی منشیات کے استعمال میں زبردست اور غیر متناسب اضافہ ہوا ہے۔

کشمیر کی موجودہ سیاسی صورت حال یقینی طور پر اس کے باسیوں کے دماغ کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ طویل سیاسی تنازعے میں رہنے کی پریشانی، غیر یقینی صورتحال اور روزگار کے محدود مواقع خود کو نقصان پہنچانے اور نشہ آور طرز زندگی اپنانے کا باعث بنتے ہیں۔

کسی بھی شورش زدہ علاقے میں ترجیحات کا تعین ریاست کے مفادات کو دیکھ کر ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے غیر سیاسی معاملات پس پشت چلے جاتے ہیں۔ اس وقت یہی کچھ معاملات کشمیر کے ساتھ درپیش ہیں۔ ریاست کی ترجیحات اپنے سیاسی مفادات کی بنیاد پر ہیں اور لگتا ہے کہ منشیات کے استعمال کی روک تھام فی الحال حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ منشیات سے متعلق گینگ یا نشہ سپلائی کرنے والے افراد کا خاتمہ کرنے کے بجائے، پولیس اور سیکورٹی حکام کی ترجیحات عسکریت پسندوں سے نمٹنا ہے۔

پاکستانی نوجوانوں میں کرسٹل میتھ کے استعمال میں اضافہ کیوں؟

سوال ہے کہ جو سکیورٹی ادارے عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کا پتہ لگا کر ان کے خلاف برسرپیکار ہو جاتے ہیں، وہ منشیات مافیا کا سراغ کیوں نہیں لگا پاتے ہیں؟ منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے لیے بس تین مراکز ہیں، جو تین اضلاع تک محدود ہیں۔ دارالحکومت سری نگر میں دو محدود صلاحیت کے بحالی مراکز واقع ہیں۔ ان میں بھی بیڈ، عملہ، ڈاکٹر وغیرہ جیسے مناسب بنیادی ڈھانچے کی عدم موجودگی کی وجہ سے مریضوں کی ایک لمبی قطار انتظار کرتے ہوئے نظر آتی ہے۔

ہمدردی کے ساتھ اس ایشو پر غور و فکرکرنے کے بجائے اب حکومت اور اس کے ادارے کشمیر میں ناراض عناصر کو منشیات کے عادی افراد کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ حکومت کی پروپیگنڈہ مشینری اس کے خلاف برسر پیکار افراد کو نشے کے عادی افراد کے طور پر پیش کر کے یہ بتانے کی کوشش کرتی ہے کہ سکیورٹی افراد پر پتھروں سے مقابلہ کرنے والے نوجوان نشہ آور ادویات کے حصول کے لیے پتھراؤ اور مظاہروں میں حصہ لیتے ہیں۔ لہذا ان کو ریاست کے دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس سے عام طور پر نشے کی لت میں مبتلا افراد کے لیے مدد حاصل کرنا ہی مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر وہ کسی سینٹر سے رجوع بھی کرتے ہیں، تو ان کا علاج کرنے کے بجائے پولیس ان کو پتھربازی میں ملوث کرتی ہے جبکہ حکومت کے ساتھ ناراضی ایک سیاسی ایشو ہے، جس کی اپنی وجوہات ہیں۔

حکومت کی غیر فعالیت نے بھی منشیات کی وبا کو فروغ دیا ہے۔ دوسری طرف معاشرے کا ردعمل بھی متاثرہ افراد کی بحالی کے لیے کچھ زیادہ سازگار نہیں ہے۔ اگرچہ مذہبی ادارے منشیات کی لت اور جسمانی اور ذہنی صحت پر اس کے نقصان دہ اثرات کے معاملے پر بات تو کرتے ہیں لیکن وہ بھی اس معاملے میں کچھ زیادہ سرگرمی نہیں دکھاتے ہیں۔

 ایک نشئی کے علاج  اور سماج میں اس کی بحالی اور باوقار زندگی میں اس کی دوبارہ شمولیت کو یقینی بنانے کے لئے مذہبی ادارے بھی اہم کردار ادا کر سکتے تھے۔ ہمارے معاشرے کو اس مسئلے کو اٹھانے اور اسے ایک سماجی برائی سے زیادہ طبی ایشو کے طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ایک معاشرے کی حیثیت سے اس مسئلے کا حل چاہتے ہیں تو علاج اور بحالی کو زیادہ سستا اور قابل رسائی بنانے کی ضرورت ہے۔ ہر سال منشیات کے خلاف تقریبات، تقریریں اور پیغامات کے سلسلے تو ہوں گے لیکن اگر بس تقریروں سے ہی کام چل سکتا تھا، تو جنوبی ایشیا میں راوی چین ہی چین لکھتا۔

اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ نشے کے نقصان دہ اثرات کو نمایا ں کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے عادی افراد کی طبی بحالی اور پھر سماج میں ان کی واپسی یقینی بنانے کے لیے عوام میں بیداری پیدا کی جائے۔ مزید کہ شورش زدہ علاقوں میں ایسے حالات نہ پیدا کیے جائیں، جن سے اعجاز جیسے ہونہار افراد، غموں سے فرار حاصل کرنے کے لیے نشے کا سہار لینے پر مجبور ہو جائیں۔

پاکستان: نشے کے عادی نوجوان ہمدردی اور علاج کے منتظر

04:28

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں