ہر برس پندرہ اگست کی صبح بلکہ یوں کہیں کہ رات کے وقت سے ہی آزادی کی مبارک باد پر مبنی پیغامات موصول ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ میں حیران تھا کہ مجھے کوئی ایک پیغام بھی وصول نہیں ہوا۔
اشتہار
کئی بار اپنا فون دیکھا اور پھر لگا کہ ہفتے کا دن ہے شاید اس لیے لوگ دیر تک آرام کر رہے ہوں گےاور یہ سوچ کر میں نے خود ہی بعض حضرات کو پیغامات لکھے لیکن جب وہ بھی ڈیلیور نہ ہوئے توتشویش میں اضافہ ہوا۔ فون چیک کیا کہ شاید میرا موبائل ڈیٹا بند ہو لیکن وہ بھی آن تھا۔
اسی الجھن میں جب میں نے لوگوں سے دریافت کیا تو بتایا گيا کہ آج تو پندرہ اگست ہے، آج انٹرنیٹ سروس کیسے دستیاب ہو گی؟ اسے تو نصف شب کے دوران ہی بند کر دیا گیا تھا۔ تومسئلہ یہ ہے کہ میں بھارتی زیر انتظام کشمیر میں تھا اور یوں کہہ لیں کہ غلطی میری تھی۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پاکستان اور بھارت کے یوم آزادی یعنی 14 اور 15 اگست سےمتعلق برسوں سے طرح طرح کی خبریں پڑھتے اور سنتے آئے تھے کہ اس روز کس بڑے پیمانے پرکشمیر میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے جاتے ہیں یا پھر چودہ اگست کے روز وادی کشمیرمیں سخت ترین سکیورٹی کے باوجود کچھ لوگ پاکستان کا پرچم لہرانے کی کوشش کرتے ہیں اور15 تاریخ کو وادی کشمیر کے لوگ بھارت کی آزادی کا جشن منانے کے بجائے اپنی اسیری کا سوگ مناتے ہیں۔
لیکن اس مرتبہ پہلی بار مجھے میڈیا کی زبانی نہیں بلکہ یوم آزادی کے موقع پر خود کشمیر کامشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔
دوپہر کے بعد مجھے سفر پر روانہ ہونا تھا لیکن چونکہ کشمیر میں جشن آزادی کو مجھے قریب سے دیکھنا تھا، اس لیے میں نے وقت سے پہلے ہی رخت سفر باندھا اور نکل پڑا۔ مرکزی کشمیرسے چلا تو راستے میں ہر جانب سائیں سائیں کرتے ہوئے سناٹوں نے ہمارا استقبال کیا۔ سڑکیں،گلیاں، محلے اور بازار سنسان پڑے تھے۔ راستوں پر جگہ جگہ روکاوٹیں تھیں اور ہر جانب نیم فوجی دستوں کا پہرہ تھا۔ خاموش تنگ گلیاں آوارہ کتوں کی چہل پہل سے آباد ملیں۔ سیب کے باغوں اوراخروٹ کے درختوں کے درمیان سے نکلنے والی تنگ سڑکیں خوف ناک سناٹے میں ملبوس تھیں۔ فلائی اورز کے ہر جانب سخت سکیورٹی تھی، شاہراہوں پر تپتی دھوپ، خاردار تاروں اور بوٹوں کا قبضہ تھا۔
دریائے جہلم کا پانی حسب معمول کسی کی پرواہ کیے بغیر اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔ چنار کے پتے جہاں تپتی دھوپ میں دل کو راحت پہنچا رہے تھے تو گدریلے پھل اور لہلہاتے دھانکے کھیت آب باراں کے لیے ترس رہے تھے۔ کشمیر کے اس عجیب موسم پر مجھے حیرانی تھی اورمیرے استفسار پر کشمیری ساتھیوں نے بتایا کہ خطے کو عشروں بعد اس طرح کے موسم کا سامناہے۔ سرینگر سمیت مختلف علاقوں سے گزرتا ہوا 45 کلومیٹر کے سفر کے بعد جب ایئر پورٹ کے پاسپہنچے تو ایک کلومیٹر پہلے ہی مجھے اور سامان کو سکیورٹی چیک سے گزرنا پڑا۔
مجھے یہ تشویش لاحق تھی کہ انٹرنیٹ ہے نہیں اور میرا ٹکٹ تو میری میل میں ہے اور اب کیا ہوگا؟ پھر خیال آیا کہ ایئر پورٹ پر شاید یہ سہولت دستیاب ہو جائے۔ لیکن میرا اندازہ غلط نکلا اورایئر پورٹ پر بھی عوام کے لیے انٹرنیٹ نہیں تھا۔ ایس ایم ایس سے اپنی ٹکٹ کی تفصیل بتا کر میںنے کسی طرح بورڈنگ پاس تو حاصل کر لیا تاہم اب مسئلہ تھا ایک حکومتی ایپ کا جو کورونا وبا کے دوران سفر کے لیے لازمی ہے۔ چونکہ وہ ایپ ڈاؤن لوڈ نہ ہو سکی، اس کے لیے ایک خصوصی فارم بھرنا پڑا۔
دوران پرواز کشمیر کے خوبصورت پہاڑوں کا نظارہ لینے کے بجائے میں اس فکر میں گم سم تھا کہ کشمیر میں قیام کے دوران کئی بار کرفیو جیسا سماں تو دیکھا تھا لیکن آج جبکہ بھارت آزادی کاجشن منا رہا ہے کشمیر کی اس خاموشی میں بے چینی، افسردگی، مایوسی اور جھنجلاہٹ پوری طرح عیاں تھی۔
انہی خیالوں میں ڈوبا تھا کہ طیارہ دہلی کے ایئر پورٹ پر لینڈ کر گيا اور جیسے ہی موبائل فون آن کیا، جشن آزادی کی مبارک کے لیے پیغامات کا سیلاب سا امڈ پڑا۔ واٹس ایپ پر آنے والے وہ تمام میسیجز ، جو کشمیر میں گزشتہ تقریبا 20 گھنٹوں سے قید تنہائی سے باہر آنے کے لیے بے تاب تھے، طوفان کی طرح وارد ہوئے۔
جشن آزادی کے موقع پر بہت سے پیغامات میں سے کچھ ایسے بھی تھے، جن میں جنگ آزادی میںمسلمانوں کی قربانیوں کو یاد کیا گيا تھا۔ بعض نے اُن مجاہدین آزادی کی تصویریں شائع کیتھیں، جنہوں نے سب سے پہلے ملک کے لیے جان کی بازی لگائی تھی۔ بعض نے اس تحریک میںمسلم خواتین کے کردار کو اجاگر کیا تھا اور تصاویر کے ساتھ یہ تفصیلات شیئر کی گئی تھیں کہکس طرح مسلم خواتین نے تحریک آزادی میں صف اوّل میں کھڑے ہو کر مردوں کے شانہ بشانہبرطانوی راج سے ٹکر لی تھی۔ حب الوطنی سے سرشار گيت اور نغمے بھی خوب شیئر کیے جا رہےتھے۔
کشمیر سے باہر رہنے والے میرے بعض کشمیری دوستوں نے بھی آزادی کی مبارک باد پیش کی تھی۔ ان کے بعض دلچسپ پیغامات میں سکیورٹی فورسز اور خاردار تاروں کی تصاویر کے ساتھ"آزادی مبارک” لکھا تھا۔ بعض نے لکھا تھا، "جو آزاد ہیں انہیں آزادی مبارک ہو۔" میرے لیے یہ لمحہ فکریہ تھا کہ یہ طنز ہے، یا پھر ہماری آزادی کا مذاق؟ یا پھر وہ یہ کہنے میں سنجیدہ تھے کہ جو آزاد ہیں، انہیں آزادی مبارک ہو۔
’جموں و کشمير کے انضمام کا ادھورا خواب پورا ہو گيا‘
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمے کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔ اس دوران کئی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ بھارتی سکیورٹی اہلکار اور کشمیری عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپوں میں کئی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Dar Yasin
وادی میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا تھا
ایک سال قبل بھارتی حکومت نے بھارتی زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے وادی میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا تھا۔ کشمیریوں کے پاس یہ خصوصی حیثیت صدراتی حکم کے تحت گزشتہ ستر سالوں سے تھی۔ بھارتی حکومت نے اس فیصلے کے فوری بعد کشمیری رہنماؤں کو ان کے گھروں میں نظر بند کر دیا ور بڑی تعداد میں گرفتاریاں بھی کی گئیں۔
تصویر: AFP/R. Bakshi
احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع
لاک ڈاؤن کے فوری بعد بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین پر شدید کریک ڈاؤن کیا گیا۔ احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھارت کے دیگر علاقوں میں بھی پھیل گیا۔ مودی مخالف جذبات رکھنے والے سرگرم کارکنوں اور شہریوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو واپس بحال کیا جائے۔
تصویر: Imago Images/S. Majeed
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس
اگست 2019ء میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے بھارت کے زیر انتطام کشمیر پر ایک خصوصی اجلاس منعقد کیا جس میں یہ اعلان کیا گیا کہ بھارت کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld
بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سےشہریوں پر مبینہ تشدد
لاک ڈاؤن کے پہلے ماہ ہی برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی جانب سے انکشاف کیا گیا کہ بھارتی افواج کی جانب سے سویلین شہریوں پر تشدد کیا گیا۔ اس رپورٹ میں بی بی سی نے ان مقامی افراد سے گفتگو کی جنہوں نے دعویٰ کیا کہ ان پر بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے شدید تشدد کیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا
ستمبر دو ہزار انیس میں پاکستان، برطانیہ، بھارت اور خود بھارتی زیر انتطام کشمیر میں بھی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ لاک ڈاؤن کے باعث کشمیر کی معیشت بد حالی کا شکار ہونا شروع ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
نیشنل کانفرس کے اراکین کو ان کی قیادت سے ملاقات کی اجازت
گزشتہ برس اکتوبر میں بھارتی حکومت نے نیشنل کانفرس کے اراکین کو ان کی قیادت سے ملاقات کی اجازت دی۔ اسی ماہ پولیس نے جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کی بہن اور بیٹی سمیت کئی خواتین کو احتجاجی مظاہرہ کرنے پر گرفتار کر لیا۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
جموں و کشمير اب دو مختلف خطے بن گئے
اکتیس اکتوبر کو سرکاری طور پر بھارتی وفاقی حکومت کے احکامات لاگو ہوئے اور جموں و کشمير اب دو مختلف خطے بن گئے، ایک جموں و کشمیر اور دوسرا لداخ، جن کے انتظامات اب براہ راست وفاقی حکومت کے ہاتھ میں چلے گئے۔ اس حوالے سے بھارتی وزير داخلہ امت شاہ نے اس پيش رفت پر کہا، ’’جموں و کشمير کے انضمام کا ادھورا خواب آج پورا ہو گيا ہے۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustfa
مقامی معیشت کو تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کے برابر نقصان
نومبر میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق مودی حکومت کی طرف سے اگست 2019ء میں جموں کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے کے اعلان کے بعد صرف کشمیر میں سکیورٹی شٹ ڈاؤن کے نتیجے میں مقامی معیشت کو تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کے برابر نقصان ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/M. Mattoo
انٹرنیٹ اور فون سروسز کو بحال کر دیا گیا
نومبر میں ہی بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع لداخ کے خطہ کرگل میں ایک سو پینتالیس روز کے بعد انٹرنیٹ اور فون سروسز کو بحال کر دیا گیا۔ تاہم وادی کمشیر میں اس پر پابندیاں عائد رہیں۔ دسمبر میں اعلان کیا گیا کہ کشمیر میں موبائل فون کی ٹیکسٹ میسیجنگ سروس بحال کی جائے گی تاہم یہ بحالی بہت محدود تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/X. Galiana
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس
جنوری دو ہزار بیس میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے ایک مرتبہ پھر کشمیر کی صورتحال پر اجلاس بلایا۔ اس موقع پر چین کی جانب سے کہا گیا کہ کشمیر کی قمست کا فیصلہ وہاں کی عوام کو کرنا چاہیے اور چین کشمیریوں کے حق رائے دہی کی حمایت کرتا ہے۔
تصویر: Imago Images/ZUMA Press/F. Khan
پاکستانی وزیر اعظم کا خطاب
رواں سال فروری میں بھارتی زیر انتظام کشمیر میں لاک ڈاؤن کو چھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا۔ پاکستانی وزیر اعظم نے پانچ فروری کو مظفرآباد میں پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا ہی ایک دن کشمیر کی آزادی کا سبب بنے گا۔‘‘
تصویر: AFP/Getty Images
عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت دیگر رہنماؤں کی نظر بندی کا سلسلہ جاری
بھارت کی جانب سے عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت دیگر رہنماؤں کی نظر بندی کا سلسلہ جاری ہے۔ فروری میں ہی امریکی صدر کی جانب سے کشمیر کی صورتحال کا حل نکالنے کے لیے ثالثی کے کردار کی پیش کش کی گئی۔
تصویر: Getty Images/S. Hussain
انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں میں کچھ کمی
اس سال مارچ میں انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں میں کچھ کمی کی جاتی ہے۔ لیکن انٹرنیٹ کی انتہائی سست رفتار کے ساتھ۔
تصویر: Reuters/A.
نئے قوانین کا نفاظ
اپریل میں بھارتی حکومت کی جانب سے نئے قوانین کا نفاظ کیا جاتا ہے۔ نئے قانون کے تحت کوئی بھی شخص جو جموں اور کشمیر میں پندرہ سال تک رہائش پذیر ہوگا وہ کشمیری ڈومیسائل کا اہل بن جائے گا۔
تصویر: AFP/T. Mustafa
بھارتی فوجیوں اور چار کشمیری جنگجوؤں کی ہلاکت
مئی میں بھارتی سکیورٹی فورسز اور کشمیری جنگجوؤں کے درمیان جھڑپ کے نتیجے میں پانچ بھارتی فوجیوں اور چار کشمیری جنگجوؤں کی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua News Agency/J. Dar
’بھارت جمہوریت کے امتحان میں ہار گیا’
اسی سال جولائی میں 'فورم فار ہیومن رائٹس ان جے اینڈ کے‘ نامی انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا تھا کہ کشمیر کئی لحاظ سے بھارتی جمہوریت کے لیے ایک امتحان رہا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت اس امتحان میں بری طرح ناکام ثابت ہوا ہے۔
تصویر: AFP/T. Mustafa
بچے کی موجودگی میں اس کے نانا کی ہلاکت
جولائی میں ہی ایک چھوٹے بچے کی موجودگی میں اس کے نانا کی ہلاکت پر کشمیر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ اس بچے کے نانا سکیورٹی افواج اور عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپ کا مبینہ طور پر نشانہ بن گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
چار اور پانچ اگست کے دوران سخت کرفیو نافذ
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں چار اور پانچ اگست کے دوران سخت کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ گزشتہ برس پانچ اگست کو ہی کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
’یوم استحصال‘
پاکستان کی جانب سے پانچ اگست کو ’یوم استحصال‘ کہا جا رہا ہے۔ آج پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا،’’ کشمیر کا معاملہ ہر فورم پر اٹھاتے رہیں گے۔‘‘ وزیر اعظم پاکستان نے ملک کا ایک نیا ’سیاسی نقشہ‘ منظر عام پر لایا ہے جس میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
19 تصاویر1 | 19
انہیں خیالوں میں جیسے جیسے میں ایئر پورٹ سے شہر کی جانب بڑھتا گيا مجھے جشن آزادی کی رونق نظر آنے لگی۔ دہلی پر گہرے بادلوں کا سایہ تھا اور بلا کی گرمی میں بھی نوجوان پتنگبازی میں مصروف تھے۔ کورونا کی وبا کے باوجود لوگ چھٹی کے موڈ میں خوش و خرم نظر آئے۔ شام ہوتے ہوتے سرکاری عمارتیں روشنیوں سے جگمگا اٹھیں اور تاریکی میں بھی جشن آزادی کانور روشن ہوا۔
اب تک میں یہ خبریں بھی پڑھ چکا تھا کہ کشمیر میں یوم آزادی کے موقع پر مظاہروں کے خوف کے سبب حکومت نے سخت بندشیں عائد کی تھیں۔ اس موقع پر جو صورتحال میں نے دیکھی تھی، اسےوزیر اعظم نریندر مودی نے لال قلعے سے اپنے خطاب میں یوں بیان کیا تھا کہ "کشمیر کو دفعہ 370 سے آزادی ملے ہوئے ایک برس مکمل ہو گيا۔"
کشمیر کے گورنر نے بھی جشن آزادی کے موقع پر فوج کے حصار میں کھڑے ہو کر اپنے بعض دفتری عملے کے چند ساتھیوں کے ساتھ بھارتی پرچم کشائی کی اور جو بات مودی نے کہی تھی تقریبا اسی کو دہرا دیا۔ میں اس بات پر حیران تھا کہ چودہ اگست کو بھی بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بندشیں عائد تھیں لیکن اس کے باوجود متعدد علاقوں میں پاکستانی پرچم کے لہرانےکی خبریں آئی تھیں تاہم پندرہ اگست کا سناٹا تو بے مثال تھا۔