کشمیر: بھارتی اہلکار کا متنازعہ بیان، پاکستان کی طرف سے مذمت
جاوید اختر، نئی دہلی
28 نومبر 2019
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اسرائیلی ماڈل اپنانے سے متعلق نیو یارک میں بھارتی قونصل جنرل کے مبینہ بیان کے بعد تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم نے اس بیان کی مذمت کی جبکہ بھارت نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
اشتہار
بھارت میں سفارتی امور کے ماہرین نے نیو یارک میں بھارتی قونصل جنرل کے اس بیان کو نئی دہلی حکومت کے موقف کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر کی صورت حال کا موازنہ فلسطین سے بالکل نہیں کیا جا سکتا۔
نیو یارک میں بھارتی قونصل جنرل سندیپ چکرورتی اپنی وائرل ہو جانے والی ایک ویڈیو میں یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں: ”جموں اور کشمیر میں حالات سدھریں گے اور کشمیری پنڈتوں کی وہاں واپسی ہو گی۔ بھارت کو کشمیر میں اسرائیلی ماڈل اپنانا چاہیے اور کشمیری پنڈتوں کو وہاں آباد کرنا چاہیے۔ جو کام اسرائیلی کرسکتے ہیں، وہ ہم بھارتی کیوں نہیں کرسکتے؟ ہمیں اپنی قیادت پر اس کے لیے دباؤ ڈالنا چاہئے، ورنہ کیا فائدہ؟"
خیال رہے کہ 1967ء کی عرب اسرائیلی جنگ کے بعد مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر قبضے کے بعد سے اسرائیل وہاں 140 یہودی بستیاں قائم کر چکا ہے، جنہیں بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔
سندیپ چکرورتی اپنے موقف پر زور دیتے ہوئے مزید کہتے ہیں: ”مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ہم لوگ اس (اسرائیلی) ماڈل کو کیوں نہیں اپناتے۔ مشرق وسطیٰ میں ایسا ہو چکا ہے۔ اگر اسرائیلی ایسا کر سکتے ہیں، تو ہم بھی کر سکتے ہیں۔ انہوں نے اپنے وطن سے باہر بھی دو ہزار سال تک اپنی ثقافت کو زندہ رکھا اور واپس اپنی زمین پر بھی لوٹ گئے۔ میرے خیال میں ہم سب کو کشمیری کلچر کو زندہ رکھنا چاہیے۔ کشمیری کلچر ہی بھارتی کلچر ہے، یہی ہندو کلچر ہے۔"
بھارتی وزارت خارجہ کے اگلے ترجمان کے لیے دوڑ میں شامل سندیپ چکرورتی نے یہ باتیں امریکا میں مقیم کشمیری پنڈتوں کے ایک پروگرام میں کہی تھیں، جس میں بھارتی فلمی اداکار انوپم کھیر اور فلم ساز وویک اگنی ہوتری بھی موجود تھے۔ یہ دونوں افراد بھارت میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے کٹر حامی بتائے جاتے ہیں۔ ایک گھنٹے تک جاری رہنے والے اس پروگرام کی ویڈیو اگنی ہوتری نے ہی فیس بک پر پوسٹ کی تھی۔
آئینی شق 370میں ترمیم ایک سفارتی جنگ
سندیپ چکرورتی نے جموں ارو کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی بھارتی آئین کی شق 370 کے مودی حکومت کی طرف سے منسوخ کیے جانے کی تعریف کرتے ہوئے کہا، ''بھارت سرکار صرف آئینی ترمیم کے لیے اتنا بڑا بین الاقوامی خطرہ مول نہیں لیتی۔ یہ ایک بین الاقوامی سفارتی جنگ تھی اور ہم اس میں کامیاب رہے۔ ہم میں سے کوئی بھی کشمیر کے بغیر بھارت کا تصور نہیں کر سکتا۔"
نئی دہلی میں مودی حکومت نے اسی سال پانچ اگست کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کر کے ریاست جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے جموں و کشمیر اور لداخ کے نام سے مرکز کے زیر انتظام دو مختلف یونین علاقے قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ عمران خان کی طرف سے مذمت
بھارتی قونصل جنرل کے اس بیان پر پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے ایک ٹویٹ میں کہا تھا، ''یہ بیان کشمیر میں آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی والی بھارتی حکومت کی فسطانی ذہنیت کا مظہر ہے۔ کشمیر میں محاصرے کو سو دن ہو چکے ہیں۔ وہاں عوام کو سنگین صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کے انسانی حقوق پامال کیے جا رہے ہیں۔ لیکن دنیا کے طاقت ور ممالک اپنے تجارتی مفادات کی وجہ سے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔"
ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی مربی تنظیم ہے اور بھارت میں ایک ہندو ریاست قائم کرنے کا بار بار سرعام اعلان کرتی رہی ہے۔
کشمیر میں کرفیو، موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آج علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی پہلی برسی منائی جا رہی ہے۔ اس موقع پر کشمیر کے زیادہ تر حصوں میں کرفیو نافذ ہے اور موبائل سمیت انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی ہے۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں مشتعل مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
اس موقع پر بھارتی فورسز کی طرف سے زیادہ تر علیحدگی پسند لیڈروں کو پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا یا پھر انہیں گھروں پر نظر بند کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
بھارتی فورسز کی جانب سے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کے ساتھ ساتھ گولیوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
مظاہرین بھارت مخالف نعرے لگاتے ہوئے حکومتی فورسز پر پتھر پھینکتے رہے۔ درجنوں مظاہرین زخمی ہوئے جبکہ ایک کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
ایک برس پہلے بھارتی فورسز کی کارروائی میں ہلاک ہو جانے والے تئیس سالہ عسکریت پسند برہان وانی کے والد کے مطابق ان کے گھر کے باہر سینکڑوں فوجی اہلکار موجود ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
برہان وانی کے والد کے مطابق وہ آج اپنے بیٹے کی قبر پر جانا چاہتے تھے لیکن انہیں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
باغی لیڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دوران سکیورٹی اہلکاروں کی جوابی کارروائیوں میں اب تک ایک سو کے قریب انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
کشمیر کے علیحدگی پسند لیڈروں نے وانی کی برسی کے موقع پر ایک ہفتہ تک احتجاج اور مظاہرے جاری رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
ایک برس قبل آٹھ جولائی کو نوجوان علیحدگی پسند نوجوان لیڈر برہان وانی بھارتی فوجیوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
9 تصاویر1 | 9
گوکہ عالمی برادری کے ایک حصے کا کہنا ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والی تبدیلیاں بھارت کا داخلی معاملہ ہیں تاہم وہاں سکیورٹی فورسز کی مسلسل تعیناتی، مواصلاتی رابطوں پر پابندی اور چوٹی کے لیڈروں سمیت سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کے حراست میں رکھے جانے پر یورپی یونین اور امریکا نے بھی تنقید کی ہے اور وہاں عائد پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔
'اکثریتی برادری کی طاقت‘
بھارتی قونصل جنرل نے مغربی ممالک کی ان کوششوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا، ''اکثریتی برادری کی حیثیت سے ہم نے اپنی طاقت کا کبھی استعمال نہیں کیا۔ ہم نے ہندو کلچر کی طاقت کا استعمال کبھی نہیں کیا۔ لیکن جب آج ہم اس کا استعمال کر رہے ہیں، تو لوگوں کو پریشانی ہو رہی ہے۔ ہمارے خلاف قراردادیں منظور کی جا رہی ہیں۔ اس موضوع کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل اور امریکی کانگریس میں اٹھایا جا رہا ہے۔ لیکن یہ لوگ شام، عراق اور افغانستان میں کیوں نہیں جاتے؟ وہاں جا کر تصویریں کیوں نہیں لیتے؟ آخر آپ ہمارے ملک میں کیوں آنا چاہتے ہیں؟ اب جب ہم نے اپنی حیثیت کا احساس دلانا چاہا ہے تو آپ کو تکلیف ہو رہی ہے۔"
بھارتی سفارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قونصل جنرل سندیپ چکرورتی کا یہ 'سرکاری بیان‘ بھارت کے دیرینہ موقف کے یکسر خلاف ہے اور اس بیان سے بھارت کو عالمی برادری میں سبکی اٹھانا پڑے گی۔
ڈی ڈبلیو سمیت متعدد میڈیا اداروں کے صحافیوں کی طرف سے بھارتی وزارت خارجہ سے اس معاملے میں سرکاری طور پر وضاحت کی درخواستیں تو کی گئیں تاہم یہ رپورٹ شائع کیے جانے تک ان کا کوئی جواب نہیں دیا گیا تھا۔
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔