تازہ واقعہ پیرکے روز پیش آیا جب کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر تعینات کمپنی کمانڈر میجر فیاض اللہ خان نے انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے خود کشی کرلی۔
اشتہار
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سن 2019 میں بھارت میں ہر تین دن میں ایک فوجی جوان نے خود کشی کی جبکہ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ دس برسوں کے دوران گیارہ سو سے زائد جوانوں نے انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے خود اپنی جان لے لی۔
سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ میجر فیاض اللہ خان جموں و کشمیر رائفلز میں کمپنی کمانڈر تھے۔ وہ کپواڑہ ضلع کے تنگدھر سیکٹر میں لائن آف کنٹرول پر تعینات تھے۔ انہوں نے مبینہ طور پر پیر کی رات کو اپنی سروس ریوالور سے خود کو گولی مار کر ہلاک کرلیا۔ حکام کا مزید کہنا ہے کہ فوری طور پر خود کشی کی وجہ معلوم نہیں ہوسکی ہے اور وہ معاملے کی تفتیش کررہے ہیں۔
اشتہار
ہر تین دن میں ایک خودکشی
بھارت میں اوسطاً ہر تین دن میں ایک فوجی جوان خود کشی جیسے انتہائی قدم اٹھا رہا ہے۔ نائب وزیر دفاع شری پد نائک نے پارلیمان کے ایوان زیریں (لوک سبھا) میں ایک سوال کے تحریری جواب میں بتایا تھا کہ سن 2019 میں بھارتی بحریہ، فضائیہ اور بری فوج میں خود کشی کے مجموعی طورپر 95 کیسز ہوئے۔ بحریہ میں دو، فضائیہ میں بیس اور بری فوج میں خود کشی کے 73 کیسز درج کیے گئے۔
دوسری طرف بھارتی میڈیا میں شائع غیر سرکاری اعدادو شمار کے مطابق سن 2010 سے سن 2019 کے درمیان 1110 فوجی جوانوں نے خودکشی کی۔ ان میں بری فوج کے 895 جوان جبکہ فضائیہ کے 185اور بحریہ کے 32 جوان شامل تھے۔ اس طرح تینوں افواج میں خود کشی کے سب سے زیادہ واقعات آرمی میں ہو رہے ہیں۔
خودکشی کا سبب
گوکہ حکومت کا کہنا ہے کہ خود کشی کے بیشتر واقعات کا سبب گھریلو مسائل یا زمین کے تنازعات تھے تاہم بھارتی میڈیا اور سابق فوجی افسران اس تشویش ناک صورت حال کے لیے کمزور قیادت، سینئر افسران کا نازیبا رویہ، حقیقی ضرورت کے باوجود چھٹی منظور کرنے سے انکار جیسے اسباب قرار دیتے ہیں۔
بھارتی فوج کے تھنک ٹینک یونائٹیڈ سروس انسٹی ٹیوشن آف انڈیا (یو ایس آئی) نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ جس میں کہا گیا تھا کہ بھارتی آرمی کے نصف سے زائد اہلکار 'انتہائی شدید دباو‘ میں ہیں اور مسلح افواج میں خود کشی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ تھنک ٹینک نے تاہم بعد میں اپنی یہ رپورٹ حذف کردی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق یو ایس آئی کے سینئر ریسرچ فیلو کرنل اے کے مور کی تیار کردہ اس رپورٹ کی اشاعت نے بھارت کے دفاعی حلقے میں طوفان برپا کردیا تھا۔ کرنل مور نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا ”بھارتی آرمی کے اہلکاروں کہ انسداد دہشت گردی/ انسداد انتہاپسندی کے ماحول میں طویل عرصے تک رہنے کی وجہ بھی ان میں دباو پیدا کرنے کے عناصر میں سے ایک ہے۔"
کم عمر فوجی، بچپن برباد اور زندگی خوفناک
سات یا آٹھ سال کی عمر میں انہیں منشیات کی عادت ڈال دی جاتی ہے اور اِن کے ذریعے لوگوں کو قتل کرایا جاتا ہے۔ اتنی کم عمری میں ہھتیار اٹھانے والے ایسے بچوں میں سے بہت کم ہی دوبارہ عام زندگی میں واپس لوٹ پاتے ہیں۔
تصویر: Jm Lopez/AFP/Getty Images
مسلح تنازعے میں شامل ہونے پر مجبور
بمباری سے تباہ ہونے والے یہ گھر، رشتہ داروں کی ہلاکتیں یا زخمی دوست، شامی شہر حلب میں جاری خانہ جنگی بھی بچوں کے ذہنوں پر منفی اثر ڈال رہی ہے۔ اس صورتحال نے بہت سے بچوں کو اس تنازعے کا حصہ بننے پر مجبور کر دیا ہے اور اب یہ بھی اپنی زندگی بچانے کے لیے ہتھیار اٹھا کر لڑ رہے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/F. al Halabi
دہشت گردی کے نام پر
دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ بھی بچوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بنا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق آئی ایس بچوں کو خود کش بمباروں کے علاوہ اپنے لیے انسانی ڈھال کے طور پر بھی استعمال کر رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press/Medyan Dairieh
صرف محاذ پر ہی نہیں
بچوں کی فلاح و بہبود کے ادارے یونیسیف کے مطابق نو عمر بچوں کو باغیوں اور حکومت کی حامی حریف جنگجو تنظیمیں اپنا حصہ بناتی ہیں اور پھر انہیں مسلح تنازعات میں لڑنے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ ان میں بچے اور بچیاں دونوں شامل ہوتے ہیں۔ اپنے مقاصد پورا کرنے کے لیے یتیم اور بے سہارا بچوں کو بھی نہیں بخشا جاتا اور کچھ واقعات میں تو بچوں کو والدین سے زبردستی چھین بھی لیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/epa Albadri
ڈھائی لاکھ بچے جنگوں کا حصہ
سوڈان، جنوبی سوڈان، صومالیہ اور چاڈ چند ایسے ممالک ہیں، جن میں گزشتہ برسوں کے دوران بچوں کی ایک بڑی تعداد کو خانہ جنگی کی آگ میں جھونکا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ان ممالک میں تقریباً ڈھائی لاکھ بچے مختلف افواج اور باغیوں کی طرف جنگ کا حصہ بنائے گئے ہیں۔ عالمی ادارے کی ایک رپورٹ میں تئیس ممالک کی ایسی باون جنگجو تنظیموں کے نام شامل ہیں، جو بچوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Azim
منشیات کا خوف اور فائدے
یونیسیف کی نِنیا شاربونو کہتی ہیں کہ افسوس کی بات ہے لیکن بچوں کو کسی بھی جنگ میں شامل کرنے کے بڑے فوائد ہیں۔ ’’بچوں کو آسانی سے قابو کیا اور استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ ان پر اخراجات بھی زیادہ نہیں آتے۔ اس کے علاوہ وہ زیادہ تر منشیات کے نشے میں دُھت رہتے ہیں۔‘‘ یہ بچے اس خوف میں زندگی بسر کرتے ہیں کہ حکم عدولی کرنے پر انہیں قتل کر دیا جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
امن دستوں کی طرف سے مدد
ان میں سے کچھ بچے اپنے ناخداؤں کے چنگل سے فرار ہونے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ یہ کم عمر فوجی اقوام متحدہ کے امن فوجیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں، جس کے بعد انہیں خوراک اور بنیادی طبی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ ایسے زیادہ تر بچے کم خوراکی، جنسی، نفسیاتی اور منشیات سے جڑی مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نئی زندگی کا آغاز
یہ بچے اپنی بنیاد سے الگ کر دیے جاتے ہیں اور انہیں اپنے ماضی کے واقعات اور ذہنی مسائل پر قابو پانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انہیں دوبارہ سے معاشرے کا حصہ بنایا جائے۔ اقوم متحدہ کے کیمپوں میں انہیں تعلیم بھی دی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Langenstrassen
’فائٹنگ فار مائی لائف‘
شینا کائٹیٹسی یوگنڈا کے ایک جنگجو گروپ سے فرار ہونے والوں میں سے ایک ہیں۔ اب بطور مصنفہ انہوں نے ماضی کے بہیمانہ واقعات کو ایک کتاب کی صورت میں شائع کیا ہے۔ ’فائٹنگ فار مائی لائف‘ نامی یہ کتاب انہوں نے ڈنمارک پہنچنے کے بعد تحریر کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نو عمر فوجی سے ہپ ہاپ اسٹار تک
عمانوئل جال کا بچپن بھی تنازعات کی نذر ہوا۔ وہ سوڈان کے ایک مسلح گروپ کا رکن تھا اور اب وہ ایک معروف ہپ ہاپ گلوکار بن چکا ہے۔ اس کے بقول اپنے ماضی کو فراموش کرنا اس کے لیے ممکن نہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’ریڈ ہینڈ ڈے‘
کم عمر بچوں کی مسلح تنازعات میں شمولیت کی روک تھام کے اقوام متحدہ کے کنونشن کی ڈیڑھ سو ممالک توثیق کر چکے ہیں۔ بارہ فروی 2012ء سے اس پر عمل درآمد بھی شروع ہو گیا۔ اسی وجہ سے ہر سال بارہ فروری کو ’ریڈ ہینڈ ڈے‘ منایا جاتا ہے۔
تصویر: imago
بچہ بچہ کب تک ہوتا ہے؟
اقوام متحدہ کے 1989ء کے کنونشن کے مطابق پندرہ سال سے کم عمر بچوں کو’چائلڈ سولجر‘ کہتے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق کسی مسلح تنازعے میں شامل یا اس میں تعاون کرنے والے 18 سال سے کم عمر کے تمام بچے ’چائلڈ سولجر‘ کہلاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA
11 تصاویر1 | 11
حالانکہ آرمی چیف جنرل ایم ایم نرونے نے مبینہ طورپر یہ کہتے ہوئے اس رپورٹ کو مسترد کردیا تھا کہ یہ صرف 400 جوانوں کے کیسز پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا تھا” 400 افراد کے نمونے کی بنیاد پر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ دباو ہے یا نہیں ہے۔ دباو ہوسکتا ہے۔ مجھ پر بھی دباو رہتا ہے۔ دباو کوئی بری چیز نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں کام بہتر ہوسکتا ہے۔"
وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق دشمنوں کے ہاتھوں موت کے مقابلے میں خود کشی کرنے والے فوجی جوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق جنوب مشرقی ایشیا میں خود کشی کی سب سے زیادہ شرح بھارت میں ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کی رپورٹ کے مطابق سن 2019 میں مجموعی طورپر ایک لاکھ 39 ہزار 123افراد نے یعنی یومیہ اوسطاً381 افراد نے خود کشی کی۔ خودکشی کی شرح میں سن 2018 کے مقابلے میں 2019 کے دوران تین اعشاریہ چار فیصد کا اضافہ ہوا۔