بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر میں سرگرم علیحدگی پسندوں نےعلاقائی ایئرپورٹ کے قریب واقع پیرا ملٹری کیمپ پر دھاوا بھول دیا ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق دو مشتبہ حملہ آور ہلاک اور تین فوجی زخمی ہوئے ہیں۔
اشتہار
نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حملہ آوروں کی ایک غیر معلوم تعداد نے ایک فوجی کیمپ پر حملہ کر دیا ہے۔ مرکزی شہر سری نگر کے علاقے میں واقع اس فوجی بیس کی سکیورٹی انتہائی سخت خیال کی جاتی ہے۔
ایک مقامی افسر ایس پی وید کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حملہ آور ہینڈ گرینیڈ پھینک رہے تھے اور خود کار ہتھیاروں سے فائرنگ بھی کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ فوجیوں کی طرف سے ان کا بھرپور جواب دیا جا رہا ہے۔
ایک پولیس اہلکار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ دو طرفہ فائرنگ کے نتیجے میں ابھی تک دو حملہ آور مارے جا چکے ہیں جبکہ تین فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ اس اہلکار نے مزید بتایا ہے کہ فوجیوں نے اس عمارت کو بھی گھیرے میں لے رکھا ہے، جہاں ممکنہ طور پر مزید ایک علیحدگی پسند چھپا ہوا ہے۔
کشمیر میں اس فوجی کیمپ میں بھارتی بارڈر سکیورٹی فورس کی بٹالین موجود ہے اور اسے سری نگر ایئرپورٹ سے خاردار تاروں کے ذریعے سے الگ کیا گیا ہے۔ یہ ایئرپورٹ بھارتی ایئرفورس کے زیر کنٹرول ہے اور اس نے ہی اس کا انتظام سنبھال رکھا ہے۔
کشمیری باغی رہنما کی تدفین میں پاکستانی پرچم لہرائے گئے
01:14
یہ بیس کیمپ ماضی میں بدنام زمانہ تفتیشی مرکز کے طور پر بھی جانا جاتا تھا۔ مشتبہ باغیوں اور ان کے ساتھ ہمدردی رکھنے والوں کو یہیں لایا جاتا تھا۔ مبینہ طور پر انہیں یہاں زیر قید تشدد کا بھی نشانہ بنایا جاتا تھا۔ بھارتی حکام کے مطابق اس حملے میں ایئرپورٹ مکمل طور پر محفوظ ہے لیکن اسے تقریبا چار گھنٹے کے لیے بند کیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق آج صبح نئی دہلی سے آنے والی ایک پرواز منسوخ کی گئی ہے اور باقی تین لڑائی کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئی ہیں۔
قریبی رہائشیوں کے مطابق وہ آج صبح سے متعدد دھماکوں اور فائرنگ کے واقعات کی آوازیں سن چکے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ابھی بھی وقفے وقفے سے فائرنگ کی آوازیں سننے کو ملتی ہیں۔ اس تمام علاقے کی سکیورٹی انتہائی سخت ہے۔ اس علاقے میں کئی اعلیٰ بیورکریٹ، پولیس افسران اور سیاستدانوں کے گھر ہیں۔ ابھی تک کسی بھی باغی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
’’بھارت کشمیر پر اپنا اخلاقی جواز کھو بیٹھا ہے‘‘
اسلام آباد میں ہونے والے پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس کا مقصد پاکستان کی جانب سے دنیا کو لائن آف کنٹرول پر جنگی کیفیت اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیری مظاہرین پر تشدد کے بارے میں آگاہ کرنا بتایا گیا ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس
وزیر اعظم، سینیئر سیاسی قائدین اور اپوزیشن کے اراکین اجلاس میں شریک ہوئے۔ پاکستان کے سکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے اجلاس میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر اور لائن آف کنٹرول کی صورت حال پر سیاست دانوں کو بریفنگ دی۔ اجلاس میں شریک سیاسی قائدین نے مسئلہ کشمیرپرحکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
نان اسٹیٹ ایکٹرز کو برداشت نہیں کریں گے
پارلیمانی اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو بھی شریک ہوئے۔ اجلاس کے اختتام پر میڈیا سے گفتگو میں بلاول بھٹو نے کہا،’’ بھارت کشمیر پر اخلاقی جواز کھو چکا ہے، کشمیر کے معاملے پر تمام سیاسی جماعتوں کا موقف ایک ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا،’’ دنیا کو بتانا ہے کہ ہم نان اسٹیٹ ایکٹرز کو برداشت نہیں کریں گے۔‘‘
تصویر: DW/R. Saeed
سیاسی رہنماؤں کی تجاویز کی روشنی حکمت عملی طے کی جائے گی
مولانا فضل الرحمان نے اس موقع پر کہا،’’ مشکل وقت میں قومی اتحاد وقت کا تقاضہ ہے۔‘‘ وزیر اعظم نواز شریف نے اجلاس میں تمام سیاسی رہنماؤں کی رائے کو سنا۔ نواز شریف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سیاسی رہنماؤں کی تجاویز کی روشنی حکمت عملی طے کی جائے گی۔
تصویر: DW/R. Saeed
’کشمیر پر بھارت کے دعوے کو مسترد کرتے ہیں‘
اس اجلاس کے اعلامیہ میں لکھا گیا ہے،’’بھارت سرحد پار دہشت گردی کا معاملہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے اٹھا رہا ہے، کشمیر پر بھارت کے دعوے کو مسترد کرتے ہیں۔‘‘ اعلامیہ میں لکھا گیا ہے کہ بھارت کی جانب سے آپس میں بات چیت کرنے کے مواقعوں کو ضائع کرنے کے عمل کی مذمت کرتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
کشمیر ایک متنازعہ علاقہ
اعلامیہ میں لکھا گیا ہے کہ بھارت نے خود اقوام متحدہ میں تسلیم کر رکھا ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ بھارت بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے اور کلبھوشن یادو جیسے ’را‘ کے ایجنٹ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرر ہے ہیں۔ اعلامیہ میں بھارت کے پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کے دعوے کو بھی مسترد کیا ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
لائن آف کنٹرول پر کشیدگی جاری
پاکستانی فوج کے شعبہء تعلقات عامہ کی جانب سے آج صبح ایک بیان جاری کیا گیا جس کے مطابق بھارتی فوج کی جانب سے نیزہ پیر سیکٹر پر’’بلا اشتعال فائرنگ‘‘ کی گئی۔ اس سے قبل پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ لائن آف کنٹرول کے قریب افتخار آباد سیکٹر میں بھارت کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔ ان واقعات کے بعد آئی ایس پی آر کے ایک اور بیان میں کہا گیا کہ کیلار سیکٹر میں بھی بھارت کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس کا ایک اہل کار ہلاک
پاکستان اور بھارت کی افواج کے مابین فائرنگ کا سلسلہ اس واقعے کے چند گھنٹے بعد ہی پیش آیا ہے جس میں عسکریت پسندوں نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے بارہ مولا سیکٹر میں بھارتی فوج کے ایک کیمپ پر حملہ کر دیا تھا۔ اس حملے میں بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس کا ایک اہل کار ہلاک اور ایک زخمی ہو گیا ہے۔
تصویر: REUTERS/M. Gupta
‘اڑی حملے میں پاکستان ملوث ہے‘
واضح رہے کہ 18 ستمبر کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اڑی سیکٹر پر عسکریت پسندوں کی جانب سے ہونے والے حملے میں 19 بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ بھارت نے الزام عائد کیا تھا کہ حملہ آور پاکستان سے سرحد پار کرکے بھارت داخل ہوئے تھے۔ پاکستان نے ان الزامات کی تردید کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Mughal
’سرجیکل اسٹرائیک‘
دونوں ممالک میں کشیدگی مزید اس وقت بڑھی جب چند روز قبل بھارتی افواج کی فائرنگ سے پاکستان کی فوج کے دو سپاہی ہلاک ہو گئے۔ بھارت نے دعویٰ کیا کہ اس نے پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ایک ’سرجیکل اسٹرائیک‘ کی۔ پاکستان نے بھارت کا یہ دعویٰ مسترد کر دیا ہے۔