کشمیر حملہ کیسے عسکری محاذآرائی میں تبدیل ہو سکتا ہے؟
15 فروری 2019
بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کے ایک حملے میں چالیس سے زائد فوجی ہلاکتوں کے بعد بھارت اور پاکستان ایک مرتبہ پھر عسکری محاذآرائی کے راستے پر ہیں۔
اشتہار
سیکورٹی ماہرین کے مطابق یہ واقعہ دونوں ملکوں میں سیاسی مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کی تمنا کرنے والوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔
جمعرات کے روز بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے مرکزی شہر سری نگر کے نواح میں ایک خودکش حملے میں 41 فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ مقامی میڈیا کے مطابق اس حملے کی ذمہ داری پاکستان سے تعلق رکھنے والی عسکری تنظیم ’جیش محمد‘ نے قبول کر لی ہے۔
بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں کسی مسلم شدت پسند گروپ کی جانب سے یہ پہلا حملہ نہیں تھا، تاہم جمعرات کے روز ہونے والا یہ حملہ ہلاکتوں کے اعتبار سے اس متنازعہ خطے میں ماضی میں پیش آنے والے واقعات کے مقابلے میں زیادہ خون ریز تھا۔
بھارت وزیراعظم نریندر مودی سمیت متعدد بھارتی حکام نے اس حملے کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ اس واقعے میں اسلام آباد کے براہ راست ملوث ہونے کے ’ناقابل تردید‘ ثبوت موجود ہیں۔
پاکستانی وزارت خارجہ نے اس واقعے میں ملوث ہونے کے الزامات کو مسترد کیا ہے جب کہ جرمنی اور امریکا سمیت عالمی برادری نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلے سے کشیدہ تعلقات اس حملے کے بعد مزید تناؤ کا شکار ہو گئے ہیں۔ بھارت سے تعلق رکھنے والے خارجہ پالیسی اور سکیورٹی کے امور کے ماہر سمیر سارن نے میونخ سکیورٹی کانفرنس کے موقع پر ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر میں ہونے والے اس حملے میں پاکستان ملوث ہے، ’’یہ ایک بے رحمانہ دہشت گردانہ حملہ تھا، جو سرحد پار کر کے آنے والے عسکریت پسندوں نے کیا اور جنہیں تربیت اور سرمایہ پاکستان میں موجود پراکسی نیٹ ورکس نے فراہم کیا۔‘‘
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
10 تصاویر1 | 10
سارن نے کہا کہ جمعرات کے روز اس حملے پر بھارت ممکنہ طور پر پاکستان میں موجود عسکریت پسندوں کے مراکز پر حملے کر سکتا ہے، ’’اس حملے کے بعد پاکستان کے ساتھ معمول کے تعلقات برقرار نہیں رہ سکتے۔‘‘اس بھارتکی ذمہ داری قبول کیے جانے کا کشمیر میں جاری پرامن سیاسی جدوجہد پر منفی اثر پڑے گا۔
بھٹ نے ڈی ڈبلیو سے بات یت میں کہا، ’’پاکستان کو جیش اور دیگر مسلم شدت پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کرنا چاہیے۔ پاکستانی فوج کے یہ اسٹریٹیجک اثاثے کشمیر کی آزادی کی قومی جدوجہد کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ایسے حملے کی وجہ سے نئی دہلی حکومت کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا جواز پیدا کر لیتی ہے۔‘‘
جموں کشمیر لبریشن فرنٹ سے تعلق رکھنے والے تہور گیلانی نے بھی کہا کہ اس تازہ حملے سے کشمیر کی ’آزادی کی تحریک‘ کو نقصان پہنچے گا۔