1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر سے کرفیو اٹھایا جائے، عمران خان کا صدر ٹرمپ سے مطالبہ

24 ستمبر 2019

نیویارک میں وزیراعظم عمران خان اور امریکی ڈونلڈ ٹرمپ نے باضابطہ باہمی ملاقات سے قبل مشترکہ پریس کانفرنس کی، جس میں امریکی صدر نے ایک بار پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی۔

USA UN-Vollversammlung in New York Treffen Trump - Khan
تصویر: Reuters/J. Ernst

وزیراعظم عمران خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے لیے امریکا میں ہیں، جہاں وہ 27 ستمبر کو جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔ اس اجلاس کے حاشیے میں پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ایک ملاقات میں امریکی صدر نے ایک بار پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش کرتے ہوئے کہا، ''آپ تیار ہیں لیکن دوسری طرف بھی ثالثی کی پیشکش قبول کرے تو میں بھی تیار ہوں‘‘۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا،''مجھ سے قبل امریکی قیادت نے پاکستان سے اچھا سلوک نہیں کیا، وزیر اعظم عمران خان اور بھارتی وزیراعظم سے بہت اچھے تعلقات ہیں‘‘۔

اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے امریکی صدر سے مطالبہ کیا کہ بھارت سے کہیں کہ وہ کشمیر سے کرفیو ختم کرے،''جنگ کا مخالف ہوں جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں لیکن اگر جنگ مسلط کی گئی تو جواب بھرپور جواب دیا جائے گا۔‘‘انہوں نے صدر ٹرمپ کو افغان مسئلہ کے سیاسی حل پر راضی کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔

تصویر: Reuters/J. Ernst

تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستانی ذرائع ابلاغ عمران خان کے دورے سے بہت زیادہ توقعات وابسطہ کر رہے ہیں۔امریکا میں بین الاقوامی امور کے ماہر معید یوسف کہتے ہیں،''بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے حوالے سے پاکستان کو سفارتی محاذ پر بہت لمبی لڑائی لڑنی ہے اور ابھی اس کا نقطہ آغاز ہے‘‘۔

معید یوسف کے بقول ڈونلڈ ٹرمپ ایک کاروباری شخصیت ہیں، جنہوں نے نفع اور نقصان کی زندگی گزاری ہے،'' پاکستان کو یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ چین کی وجہ سے امریکا کے بھارت کے ساتھ مفادات وابسطہ ہیں، جو کچھ گزشتہ روز صدر ٹرمپ نے ہیوسٹن میں کہا وہ بھارتی عوام کے لیے تھا اور آج جو کچھ کہا وہ پاکستانی عوام کے لیے ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسا ممکن نہیں کہ کشمیر میں بھارتی جبر کے حوالے سے سن کر ٹرمپ فوری مودی کو کان سے پکڑ کر بات چیت پر مجبور کریں گے اور مسئلہ کشمیر حل ہوجائے گا بلکہ یہ بہت لمبی لڑائی ہے، جو پاکستان کو لڑنی ہے۔

اس سے قبل وزیراعظم عمران خان نے امریکی کونسل فار فارن ریلیشنز سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا،'' جب میں سن 2008 میں امریکا آیا تو ڈیموکریٹس کو بتایا تھا کہ افغان مسئلے کا فوجی حل نہیں، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں 70 ہزار لوگوں نے جانیں قربان کیں، 200 ملین ڈالرز کا نقصان ہوا۔‘‘

عمران خان نے کہا کہ سوویت فوج نے افغانستان میں جنگ کے دوران 10 لاکھ شہریوں کو ہلاک کیا، پاکستان میں 27 لاکھ افغان پناہ گزین رہ رہے ہیں، ڈیورنڈ لائن برٹش حکام نے بنائی تھی،'' اب ہم پاک افغان سرحد پر باڑ لگا رہے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ افغان معاملہ بہت پیچیدہ ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ طالبان پورے افغانستان کو کنٹرول کر سکتے ہیں، افغان شہری 40 سال سے مشکل صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔‘‘وزیراعظم کے بقول ماضی کے مقابلے میں طالبان زیادہ مضبوط ہیں اور ان کا حوصلہ بلند ہے۔

مبصرین کے مطابق وزیر اعظم کی صدر ٹرمپ سمیت دیگر عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں اس سفارتی عمل کا حصہ ہیں، جو بہت صبر طلب کام ہے، دنیا کو یہ باور کرانا ہے کہ جب کشمیر میں کرفیو ختم ہو گا تو اس وقت جو حالات ہوں گے اس کی ذمہ داری پاکستان پر نہ ڈالی جائے۔

تجزیہ کار مبشر زیدی کہتے ہیں کہ پاکستان کے پاس سفارت کاری کے علاوہ اس لڑائی کے لیے کوئی اور راستہ موجود نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی مجموعی طور پر 50 ملاقاتیں کریں گے۔ ان کے مطابق،''ہیوسٹن میں وزیراعظم مودی کی ریلی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، ہیوسٹن میں وہی ہوا ہے، جو واشنگٹن میں عمران خان کی ریلی میں ہوا تھا۔‘‘

واشنگٹن میں عمران خان کے جلسے کے مناظر

01:09

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں