کشمیر: صحافی اور مصنف گوہر گیلانی کی گرفتاری کے احکامات
18 فروری 2022گوہر گیلانی کا صحافتی کام ڈی ڈبلیو سمیت متعدد اخبارات اور نشریاتی اداروں پر نشر ہوتا ہے۔ بھارتی میڈیا ادارے دی وائر کی ایک رپورٹ کے مطابق گوہر گیلانی کو تین فروری کو عدالت میں پیش ہو کر ایک بانڈ پر دستخط کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔
بھارت: کشمیر پر ٹویٹ کے بعد غیر ملکی کمپنیوں کے بائیکاٹ کی مہم
اس تحریری دستاویز کے ذریعے کسی فرد کو پابند بنایا جاتا ہے کہ وہ 'نقص عامہ‘ کا سبب نہ بنے اور ’امن و امان کی صورتحال‘ خراب نہ کرے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں تاہم اس دستاویز کو آزادی اظہار رائے پر قدغن قرار دیتی ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ چوں کہ گوہر گیلانی تین فروری کو اس دستاویز پر دستخط کرنے کے لیے نہیں پہنچے اس لیے ان کی گرفتاری اور حفاظتی حراست کے احکامات جاری گئے ہیں۔ مقامی میڈیا کے مطابق عمومی حالات میں کسی شخص کو حفاظتی حراست میں لیا جا سکتا ہے لیکن گوہر گیلانی، جو پہلے بھی ’غیرقانونی سرگرمیوں سے بچاؤ کے قانون‘ کے تحت ایک بار گرفتار ہو چکے ہیں، ان کی حراستی مدت لامتناہی بھی ہو سکتی ہے۔
روپا پبلیکشن کے تحت شائع ہونے والی کتاب ’کشمیر، ریج اینڈ ریزن‘ کے مصنف کے خلاف اس قانونی کارروائی کی وجہ ان کا وہ ٹویٹ بنا، جس میں انہوں نے مقامی اخبار میں یکم فروری کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ شیئر کی تھی۔ اس رپورٹ میں شوپیاں کے ایک گاؤں میں عسکریت پسندوں کی ایک حملے اور اس میں ایک پولیس اہلکار کے زخمی ہونے کی اطلاعات تھیں۔ یہ ٹویٹ بعد میں مصنف نے ڈیلٹ کر دیا تھا۔
دو روز بعد شوپیاں کے ایگزیکٹیو مجسٹریٹ کی جانب سے ایک ہدایت نامے میں کہا گیا تھا کہ گیلانی نے، ’’ایسی معلومات سوشل میڈیا پر پھیلائیں، جن کی وجہ سے ایک زخمی شخص کی زندگی خطرے میں پڑی۔‘‘
یہ بات اہم ہے کہ گوہر گیلانی اگست 2019 میں بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دستوری شق 370 کے خاتمے کے ناقد رہے ہیں۔ وہ جموں و کشمیر کی سلامتی کی صورت حال سے متعلق اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر مسلسل لکھتے رہے ہیں۔ تاہم ایگزیٹیو مجسٹریٹ کی جانب سے طلبی کے بعد سے ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس مسلسل خاموش ہیں۔
گوہر گیلانی کی گرفتاری کے احکامات سے فقط دو روز قبل ایوارڈ یافتہ صحافی اور کشمیر والا کے ایڈیٹر فہد شاہ کو ’ملک دشمن مواد‘ شائع کرنے کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔
ع ت، اا