1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر: فلموں سے بھارت کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
20 ستمبر 2022

بھارتی کشمیر میں دو عشروں بعد سنیما ہال کھولے جا رہے ہیں، جس کی بھارت میں بڑی تعریف کی جا رہی ہے۔ تاہم کشمیری تجزیہ کار اسے 'خطے میں بالی وڈ کی توسیع' قرار دے رہے ہیں۔

Kashmir Files
تصویر: DW

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں دو سنیما گھروں کا افتتاح کیا گیا ہے، جس کے بھارتی میڈیا میں کافی تذکرے ہو رہے ہیں۔ کشمیر میں مودی حکومت کے نمائندہ، لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے اتوار کے روز جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ اور شوپیان میں ان سنیما گھروں کا افتتاح کیا تھا۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اسّی کے عشرے میں کئی سنیما گھروں میں فلموں کی نمائش ہوتی تھی، تاہم علیحدگی پسندوں کی تحریک اور شورش کے سبب، سن 1990 تک تقریبا تمام تھیٹر بند ہو گئے تھے۔ اس طرح تقریبا 23 برس بعد کشمیر میں بھارتی حکومت کی ایما پر سنیما گھر پھر سے کھولے جا رہے ہیں۔

کشمیر کی آزادی کے اپنے بابا کے مشن کو آگے بڑھاؤں گی، رضیہ سلطانہ

ہر ضلع میں سنیما ہال کھولنے کی تیاری 

کشمیر کے لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے اسے "تاریخی موقع"  قرار دیا اور کہا کہ عوام کو اس کا بڑی شدت سے انتظار تھا۔ اس حوالے سے گورنر ہاؤس نے جو تصاویر شیر کی ہیں، ان میں افتتاح کے بعد گورنر کو اپنے بعض افسران اور اسکول کے چند طلبہ کے ساتھ فلم دیکھتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

 منوج سنہا نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، "مرکز کے زیر اہتمام جموں و کشمیر کے لیے یہ ایک تاریخی دن ہے! پلوامہ اور شوپیاں میں ملٹی پرپز سنیما ہالز کا افتتاح کیا گیا۔ سنیما فلموں کی اسکریننگ، انفوٹینمنٹ اور نوجوانوں کی اسکلز جیسی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔"

اس میں حب الوطنی اور قوم پرستانہ کہانیوں پر مبنی فلمیں دکھانے کی کوشش  ہو گی، جس میں 'مشن کشمیر' یا 'اڑی' اور 'کشمیر فائلز' جیسی فلمیں شامل ہیںتصویر: DW

ان کا مزید کہنا تھا، "میں ان سنیما گھروں کو پلوامہ اور شوپیاں کے نوجوانوں کو وقف کرتا ہوں۔ ہم جلد ہی جموں و کشمیر کے ہر ضلع میں اس طرح کے ملٹی پرپز سنیما بنائیں گے۔"

مقصد کیا ہے؟

آزاد بھارت میں ایسا شاید پہلی بار ہو رہا ہے کہ کسی خطے میں حکومت نے خود سنیما گھر چلانے کے لیے تھیٹر کی تعمیر شروع کی ہو۔ عام طور پر ایسے تمام تفریحی مقام نجی ملکیت سے چلتے ہیں۔ تو پھر کشمیر میں حکومت نے خود سنمیا گھر چلانے کا کیوں سوچا ہے۔

نئی دہلی میں ایک سینیئر کشمیری صحافی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ’’یہ در اصل بالی وڈ کو مقبوضہ علاقوں تک پہنچانے کی بھی ایک کوشش ہے۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اب بھارت فلموں کے ذریعے کشمیر کو ضم کرنے کی ایک نئی طرح کی کوشش کرنے کی پہل کر رہا ہے۔"

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، "اس میں حب الوطنی اور قوم پرستانہ کہانیوں پر مبنی فلمیں دکھانے کی کوشش  ہو گی۔ جس میں 'مشن کشمیر' یا 'اڑی' اور 'کشمیر فائلز' جیسی فلمیں شامل ہیں۔"

ان مذکرہ فلموں میں شدت پسندی کے ساتھ ساتھ عسکریت پسندوں اور پڑوسی ملک پاکستان کی منفی شبیہ پیش کی گئی ہے۔ بھارت اپنے زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسندوں اور عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کے لیے عام طور پر پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں کشمیری تجزیہ کار نے بتایا کہ کشمیر میں لوگوں کا ایسا کوئی مطالبہ کبھی سامنے نہیں آیا کہ انہیں سنیما گھروں کی ضرورت ہے، یا پھر انہیں اس کا شدت سے انتظار تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بات صحیح ہے کہ کشمیر میں شدت پسندی کی وجہ سے سنیما گھر بند ہو گئے، تاہم "میرے خیال سے انتظامیہ، عوام کی مرضی کے بغیر، اسے تھوپنے کی کوشش کر رہی ہے۔"

اس میں حب الوطنی اور قوم پرستانہ کہانیوں پر مبنی فلمیں دکھانے کی کوشش  ہو گی۔ جس میں 'مشن کشمیر' یا 'اڑی' اور 'کشمیر فائلز' جیسی فلمیں شامل ہیںتصویر: Debarchan Chatterjee/NurPhoto/picture alliance

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شہروں میں سنیما، ڈرامہ یا دیگر تفریحی سرگرمیاں عموماً شام کے وقت شروع ہوتی ہے، تاہم کشمیر میں نائٹ لائف تو تقریبا ہے ہی نہیں۔

بھارتی کشمیر میں ’یوم شہداء‘ کے موقع پر حملے میں پولیس اہلکار ہلاک

ان کے مطابق کشمیر میں، "تشدد معمول کی بات ہے، ہر جگہ فوج اور نیم فوجی دستوں کا پہرہ بھی رہتا ہے، اس کی وجہ سے لوگ خوف میں رہتے ہیں اور شام ہوتے ہی کشمیر میں ہر جانب سناٹا چھا جاتا ہے۔ غروب آفتاب کے بعد لوگ گھروں سے باہر نکلنے سے بھی ڈرتے ہیں۔ اس صورت میں نائٹ لائف کہاں ہو گی، اور اس کے بغیر سنیما گھروں کی کامیابی کا امکان کیا ہے؟

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عسکریت پسندی کی وجہ سے ہی سنمیا گھر بند ہوئے تھے اور غالب امکان اس بات کا ہے کہ مستقبل میں جب بھی حالات پھر کشیدہ ہوں گے تو پہلا نشانہ سنیما حال ہی ہوں گے۔ 

کشمیری صحافت کی حالت زار، کیا سب ٹھیک ہے؟

حکام کا کہنا ہے ان سنیما گھروں کو حکومت چلائے گی اور  فلموں کی نمائش کے علاوہ ان کا تعلیمی، سائنسی، سماجی بیداری اور معلومات کی ترسیل کے لیے بھی ان کا استعمال کیا جائے گا۔

 حکام کا کہنا ہے کہ آئندہ چند روز کے بعد ہی سرینگر میں بھی ایک اور ملٹی پلیکس کھلنے والا ہے، جسے ایک تاجر کشمیری پنڈت نے تیار کیا ہے اور یہ سنیما گھر نجی ملکیت سے چلے گا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں