1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

کشمیر: فوج پر فرضی تصادم میں تین افراد کو ہلاک کرنے کا الزام

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
17 نومبر 2021

بھارتی فورسز کا کہنا ہے کہ مارے جانے والے افراد شدت پسند اور ان کے حامی تھے تاہم اہل خانہ نے پولیس کے بیان کو جھوٹا بتایا ہے۔ اس دوران کشمیر کے مسئلے پر اقوام متحدہ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پھر تلخ کلامی ہوئی۔

Indien | Angriff auf eine Schule in Srinagar
تصویر: Dar Yasin/AP Photo/picture alliance

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں فورسز نے معروف شہر سرینگر کے حیدر پورہ میں پیر کی رات کو ایک تصادم میں چار افراد کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا تھا۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ہی مقامی لوگ اور متاثرین کے اہل خانہ پولیس پر جھوٹ بولنے کا الزام عائد کیا ہے۔

پیر کی رات کو ہونے والے اس واقعے میں چار افراد ہلاک ہوئے تھے، جس میں دو مقامی تاجر اور ایک مزدور بھی شامل ہے۔ جس عمارت میں یہ واقعہ پیش آيا اس کے مالک الطاف حسین کی دوکان بھی وہیں تھی جبکہ ایک ڈاکٹر مدثر گل بھی اس عمارت سے اپنا کاروبار چلا رہے تھے۔ یہ دونوں بھی مارے گئے۔

پولیس کے مطابق اس تصادم میں ایک پاکستانی شدت پسند اپنے مقامی عسکریت پسند عامر کے ساتھ ہلاک ہوا۔  تاہم متاثرین کے اہل خانہ کے بیانات اور پولیس کے متضاد بیانات سے جہاں اس پر سوال اٹھ رہے ہیں وہیں اس واقعے کی دیگر تفصیلات بھی سامنے آتی جا رہی ہیں۔

معاملہ کیا ہے؟ 

پولیس نے اپنے پہلے بیان میں کہا تھا کہ جس عمارت میں تصادم ہوا اس کے مالک کے ساتھ ہی ایک ڈاکٹر بھی ہلاک ہو گئے اور وہ شدت پسندوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔ پھر بعد میں پولیس نے اپنے دوسرے بیان میں کہا کہ وہ کراس فائرنگ میں مارے گئے ہیں اور یہ واضح نہیں ہے کہ وہ کس کی گولی سے ہلاک ہوئے۔

اس کے بعد پولیس اپنے ایک اور بیان میں کہا کہ اس مبینہ تصادم میں ہلاک ہونے والے دونوں تاجر شدت پسندوں کے حامی تھے جبکہ عامر نامی مقامی مزدور عسکریت پسند تھا۔ پولیس اس حوالے سے حسب معمول بعض ہتھیاروں کے برآمد ہونے کی بات کہہ رہی ہے۔

اہل خانہ کا موقف

لیکن متاثرین کے اہل خانہ نے پولیس کے ان تمام بیانات کو جھوٹ پر مبنی قرار دیا اور کہا کہ دونوں تاجروں کو سکیورٹی فورسز نے ہلاک کیا ہے۔ اہل خانہ نے پولیس سے متاثرین کی لاشیں دینے کا مطالبہ کیا تاہم بھارتی فورسز نے وہ بھی دینے سے انکار کر دیا اور شہر سے سو کلومیٹر دور ہندوارہ میں فوج نے انہیں دفن کر دیا۔

الطاف بھٹ کی بھتیجی صائمہ بھٹ نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، "تم نے میرے بے گناہ چچا محمد الطاف بھٹ کو حیدر پورہ میں بے رحمی سے قتل کر دیا، تم نے انہیں انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا اور اب کہہ رہے ہو کہ وہ شدت پسندوں کے حامی تھے۔ ان کی جسد خاکی تو ہمیں واپس کر دو۔"

اہل خانہ کی تمام کوششوں کے باوجود پولیس نے ان کی لاشوں کو گھر والوں کے حوالے نہیں کیا۔ ڈاکٹر مدثر کے بھی اہل خانہ نے پولیس کے اس بیان کو، "جھوٹ بتایا ہے کہ وہ شدت پسندوں کے لیے کام کرتے تھے۔"

تصویر: Yawar Nazir/Getty Images

  ان کے ایک رشتے دار نے مقامی میڈیا سے بات چیت میں کہا، "انصاف چاہیے ہمیں، ان کی لاش ہمیں واپس کرو۔ وہ دانتوں کے سرجن تھے اور اپنا کاروبار بھی کرتے تھے۔"

اس دوران ہلاک ہونے والے ایک مقامی مزدور عامر کے والد عبد الطیف مگرے  نے بھی پولیس کے دعوؤں کی تردید کی۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا بے گناہ تھا جو وہاں دوکان پر مزدوری کرتا تھا۔ مگرے نے 2005 میں ایک شدت پسند کو پتھر سے مار کر ہلاک کرنے کا دعوی کیا تھا، جس کے بعد وہ کافی مشہور ہوئے تھے اور انہیں انعام و اکرام سے بھی نوازا گيا تھا۔

انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا، "میں نے خود ایک دہشت گرد کو پتھر سے مارا ہے۔ میں نے دہشت گردوں کی گولیاں کھائی ہیں۔ میرا کزن بھائی بھی عسکریت پسندوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ ہمیں 11برس تک اپنے گھر سے دور رہنا پڑا۔ میں نے اپنے بچوں کو خفیہ مقامات پر رکھ کر بڑی مشکل سے ان کی پرورش کی۔ آج اسی قربانی کا نتیجہ ہے کہ جس بھارتی نے ایک دہشت گرد کو پتھر سے مارا، اسی کے بیٹے کو ہلاک کر کے دہشت گرد کہا جا رہا ہے۔"

ان کا کہنا ہے کہ فورسز نے ان کے بیٹے کی لاش تدفین کے لیے بھی نہیں دی،’’دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا صلہ یہ ہے کہ میرے بیٹے کی لاش بھی نہیں دی گئی۔ میرے گھر پر اب بھی پولیس کے گارڈز ہیں، کل کو سیکورٹی گارڈز مجھے بھی مار کر دعویٰ کر سکتے ہیں کہ میں ایک عسکریت پسند تھا۔‘‘

تفتیش کا مطالبہ

مقامی لوگوں اور اہل خانہ  کے بیانات کے بعد سے بھارتی فورسز کے دعوؤں پر سوال اٹھ رہے ہیں، جس کے بعد اس پورے واقعے کی تفتیش کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔  سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے بھی اسی کا مطالبہ کیا ہے۔

تصویر: Faisal Khan/AA/picture alliance

انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ’’معصوم شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنا، انہیں کراس فائرنگ میں مار دینا اور پھر آسانی سے انہیں شدت پسند کا حامی بتانا اب بھارتی حکومت کی رول بک کا حصہ بن چکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سچائی کو سامنے لایا جائے اور سکیورٹی فورسز میں استثنیٰ کے اس بڑھتے ہوئے کلچر کو ختم کرنے کے لیے ایک معتبر عدالتی انکوائری کی جائے۔"

اقوام متحدہ میں کشمیر پر تلخ کلامی

گزشتہ روز اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر منیر اکرم نے کشمیر کی مخدوش صورت پر بات کرتے ہوئے ایسی ہی انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف آواز اٹھائی تھی اور کہا تھا کہ عالمی برادری کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

تاہم بھارت نے ایک بار پھر حسب معمول جواب میں اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بھارت دہشت گردی کو نہیں برداشت کرے گا اور اس کے خلاف سخت کارروائی کرتا رہے گا۔ بھارتی مندوب کاجل بھٹ نے تمام وہیں باتیں دہرائیں کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ حصہ ہے اور رہے گا۔  

ضلع کپوارا سے ٹنگڈار سیکٹر تک کا سفر، ہر قدم پر رکاوٹ

03:01

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں