کشمیر: لندن میں ’پرتشدد‘ مظاہرہ، مودی کی بورس جانسن سے گفتگو
21 اگست 2019
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے پندرہ اگست کو ملکی یوم آزادی کے موقع پر کشمیر کے تنازعے سے متعلق ایک مظاہرے کے ’پرتشدد‘ ہو جانے پر برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کے ساتھ بات چیت کی ہے۔
اشتہار
نئی دہلی سے بدھ اکیس اگست کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق بھارتی وزارت خارجہ نے آج جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ وزیر اعظم مودی نے منگل بیس اگست کی شام اپنے برطانوی ہم منصب بورس جانسن کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو میں پندرہ اگست کو برطانوی دارالحکومت میں ہونے والے مظاہرے کے پرتشدد ہو جانے کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔
لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے اس مظاہرے میں ہزاروں افراد شریک ہوئے تھے، جنہوں نے پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے پرچم اٹھا رکھے تھے۔ یہ مظاہرین نئی دہلی میں مودی حکومت کے بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
اس مظاہرے کے شرکاء کے بارے میں وزیر اعظم مودی کے حامیوں اور بھارت میں حکمران ہندو قوم پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارکان نے یہ الزام لگایا تھا کہ مظاہرین نے چند بھارتی خواتین اور بچوں پر انڈے اور بوتلیں بھی پھینکی تھیں اور موقع پر موجود برطانوی اہلکار انہیں روکنے میں ناکام رہے تھے۔
نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے مطابق اس پس منظر میں نریندر مودی نے اپنے برطانوی ہم منصب بورس جانسن کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو میں کہا کہ ایسے مظاہروں کے پیچھے وہ مخصوص مفادات ہیں، جو اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے پرتشدد راستے استعمال کرتے ہیں۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بھارتی وزارت خارجہ نے اس بارے میں اپنے بیان میں لندن میں 'مظاہرین‘ کے بجائے ایک 'بڑے مشتعل ہجوم‘ کے الفاظ استعمال کیے اور کہا، ''اس تناظر میں وزیر اعظم مودی نے اپنی گفتگو میں اس تشدد اور توڑ پھوڑ کا حوالہ دیا، جس کا لندن میں بھارت کے یوم آزادی کے دن بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے ایک بڑا مشتعل ہجوم مرتکب ہوا تھا۔‘‘
بیان میں مزید کہا گہا ہے، ''وزیر اعظم جانسن نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا اور یقین دلایا کہ بھارتی ہائی کمیشن، اس کے اہلکاروں اور مہمانوں کی حفاظت اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔‘‘
اس بارے میں لندن پولیس نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس نے اس بدنظمی میں ملوث ہونے کے الزام میں چار افراد کو گرفتار کر لیا تھا، جنہوں نے پولیس کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی تھی اور جن کے پاس ہتھیار بھی تھے۔ پولیس نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ ایک یا ایک سے زائد ہتھیار کس قسم کے تھے۔
م م / ا ا / اے ایف پی
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔