کشمیر: مسلسل لاک ڈاؤن، غصے اور علیحدگی پسندانہ سوچ میں اضافہ
10 ستمبر 2019
نئی دہلی میں مودی حکومت کے بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے متعلق پانچ اگست کے فیصلے کے بعد سے سکیورٹی لاک ڈاؤن ہنوز جاری ہے، عوامی غم و غصہ مسلسل زیادہ ہوتا جا رہا ہے اور خطے میں علیحدگی پسندانہ رجحانات بڑھتے جا رہے ہیں۔
اشتہار
جموں کشمیر میں پلوامہ سے ڈی ڈبلیو کے نامہ نگار رفعت فرید لکھتے ہیں کہ گزشتہ ماہ کے اوائل میں مودی حکومت نے نئی دہلی کے زیر انتظام جموں کشمیر کو دو علاقوں میں تقسیم کر کے انہیں بھارت کے یونین علاقے بنا دینے کا جو فیصلہ کیا، اس نے اس منقسم ریاست کے شہریوں کی بہت بڑی اکثریت کو شدید دھچکے کا شکار کر دیا تھا۔
جب سے مودی حکومت نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کا فیصلہ کیا ہے، تب سے وہاں غیر معمولی لیکن مسلسل سکیورٹی لاک ڈاؤن جاری ہے اور کسی بھی قسم کے عوامی احتجاج اور مظاہروں کو روکنے کے لیے بھارتی حکومت نے وہاں ٹیلی مواصلات کا پورا نظام بھی معطل کر رکھا ہے۔ پانچ اگست کے فیصلے سے پہلے ہی وہاں ہزاروں کی تعداد میں جو اضافی بھارتی سکیورٹی دستے تعینات کر دیے گئے تھے، ان کی موجودگی اور کبھی کبھی کے استثنیٰ کے ساتھ مسلسل جاری رہنے والے کرفیو کے باعث یہ خطہ، جو پہلے ہی دنیا کے سب سے زیادہ عسکری موجودگی والے خطوں میں شمار ہوتا ہے، کئی ہفتوں سے اضافی مسائل کا شکار ہو چکا ہے۔
غیر معمولی سکیورٹی لاک ڈاؤن
اس بارے میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے جنوب میں کریم آباد نامی ایک گاؤں کے 55 سالہ رہائشی محمد امین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس طرح کا سکیورٹی لاک ڈاؤن تو میں نے اپنی پوری زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ایسا تو 1990ء کی دہائی کے اوائل میں بھی نظر نہیں آیا تھا، جب کشمیری عسکریت پسند علاقے میں سرعام گھومتے پھرتے تھے۔ اب عسکریت پسندی تو تقریباﹰ کہیں نظر نہیں آتی، لیکن بھارتی مسلح دستے سڑکوں پر اور گلیوں میں ہر جگہ بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں۔‘‘
نئی دہلی کے زیر انتظام کشمیر میں ٹیلی کمیونیکیشن بلیک آؤٹ کو آج ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے۔ یہ بات اب تک واضح نہیں کہ یہ کب ختم ہو گا۔ بھارتی سول اور عسکری اہلکار اس بارے میں کچھ بھی کہنے سے کتراتے ہیں۔ یوں انٹرنیٹ اور ٹیلی فون رابطے نہ ہونے کے باعث کشمیر کے عوام باقی ماندہ دنیا سے مسلسل کٹے ہوئے ہیں۔
'بیرونی دنیا کو کوئی خبر نہ ہو‘
محمد امین نے کشمیری عوام کی مشکلات اور ان کی نقل و حرکت پر عائد کڑی پابندیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ''ہم نہیں جانتے کہ بھارتی حکومت آخر چاہتی کیا ہے؟ لیکن یہ بات واضح ہے کہ حکومت یہ بالکل نہیں چاہتی کہ بیرونی دنیا کو اس کی کوئی خبر ہو کہ کشمیر میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔‘‘
کشمیر میں کرفیو، سکیورٹی لاک ڈاؤن اور ٹیلی مواصلاتی بلیک آؤٹ کشمیری باشندوں کے لیے کس طرح کی تکلیف دہ صورت حال کی وجہ بن چکے ہیں، اس بارے میں راول پورہ کی رہنے والی کشیمری خاتون منورہ بیگم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مجھے اپنے بچے کو علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا تھا۔ لیکن تمام نجی کلینک بند تھے۔ ہم ہسپتال گئے تو وہاں ایمرجنسی وارڈ کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ ہماری باری آنے تک کئی گھنٹے لگ جاتے، ہم ایک دوا فروش کی دکان پر گئے اور بچے کی دوائی لے کر واپس لوٹ گئے۔‘‘
اقوام متحدہ کو بھی گہری تشویش
کشمیر کی موجودی صورت حال کے بارے میں کل پیر نو ستمبر کے روز اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمشنر میشل باچیلٹ نے بھی جنیوا میں انسانی حقوق کی عالمی کونسل کے اجلاس سے اپنے افتتاحی خطاب میں کھل کر کہا، ''مجھے اس بات پر گہری تشویش ہے کہ بھارتی حکومت کے کشمیر میں کیے جانے والے حالیہ اقدامات کے کشمیری عوام کے انسانی حقوق پر کس طرح کے شدید اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔‘‘
بھارت کے خلاف نفرت میں اضافہ
بھارتی حکام کا دعویٰ ہے کہ کشمیر میں حالات بہتر ہو کر معمول کی طرف آتے جا رہے ہیں۔ لیکن کشمیر کے 60 سالہ شہری محمد شعبان تنبیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ''یہ شدید جبر خطے میں بھارت کے خلاف مزید نفرت کی وجہ بنے گا اور مسلح بغاوت کو ہوا دے گا۔ نئی دہلی حکومت نے اب تک کشمیر میں جو اقدامات کیے ہیں، ان سے کشمیری عوام میں پائے جانے والے غم و غصے اور علیحدگی پسندانہ سوچ میں پہلے ہی اضافہ دیکھنے میں آ چکا ہے۔‘‘
جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے رہائشی محمد شعبان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''انہوں (بھارت) نے عوام کی آواز کچل دی ہے اور ہم اپنی ناپسندیدگی کا اظہار بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بھارت ایسا کب تک کر سکے گا؟ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ایسے جبر کے ہمیشہ منفی اور جابروں کے لیے نقصان دہ نتائج ہی نکلے ہیں۔‘‘
کشمیر میں کرفیو، موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آج علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی پہلی برسی منائی جا رہی ہے۔ اس موقع پر کشمیر کے زیادہ تر حصوں میں کرفیو نافذ ہے اور موبائل سمیت انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی ہے۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں مشتعل مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
اس موقع پر بھارتی فورسز کی طرف سے زیادہ تر علیحدگی پسند لیڈروں کو پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا یا پھر انہیں گھروں پر نظر بند کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
بھارتی فورسز کی جانب سے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کے ساتھ ساتھ گولیوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
مظاہرین بھارت مخالف نعرے لگاتے ہوئے حکومتی فورسز پر پتھر پھینکتے رہے۔ درجنوں مظاہرین زخمی ہوئے جبکہ ایک کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
ایک برس پہلے بھارتی فورسز کی کارروائی میں ہلاک ہو جانے والے تئیس سالہ عسکریت پسند برہان وانی کے والد کے مطابق ان کے گھر کے باہر سینکڑوں فوجی اہلکار موجود ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
برہان وانی کے والد کے مطابق وہ آج اپنے بیٹے کی قبر پر جانا چاہتے تھے لیکن انہیں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
باغی لیڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دوران سکیورٹی اہلکاروں کی جوابی کارروائیوں میں اب تک ایک سو کے قریب انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
کشمیر کے علیحدگی پسند لیڈروں نے وانی کی برسی کے موقع پر ایک ہفتہ تک احتجاج اور مظاہرے جاری رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
ایک برس قبل آٹھ جولائی کو نوجوان علیحدگی پسند نوجوان لیڈر برہان وانی بھارتی فوجیوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
9 تصاویر1 | 9
محمد شعبان نے اپنے موقف کے حق میں دلیل دیتے ہوئے کہا، ''کشمیر میں تین عشروں سے جاری مسلح تحریک حالیہ برسوں میں دوبارہ اتنی مضبوط ہو چکی ہے کہ اب اسے عام شہریوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ ایسے میں بھارتی حکومت کے کشمیر میں حالیہ اقدامات، سکیورٹی لاک ڈاؤن، کرفیو اور ٹیلی مواصلاتی رابطوں کا مسلسل منقطع رہنا صرف بھارت کے خلاف مزید نفرت کی وجہ ہی بن سکتے ہیں۔‘‘
'عوام کو اظہار رائے کا موقع تو دو‘
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں شوپیاں کا ضلع وہ علاقہ ہے جہاں کشمیری عسکریت پسندوں کے ایک نوجوان کمانڈر برہان وانی کی بھارتی دستوں کے ساتھ لڑائی میں ہلاکت کے بعد 2016ء میں مسلح احتجاج شروع ہو گیا تھا۔ اس خونریز احتجاج کے دوران وہاں دو درجن کے قریب کشمیری عسکریت پسند مارے بھی گئے تھے۔ شوپیاں ضلع ہی کے ایک گاؤں کی رہنے والی 55 سالہ کشمیری خاتون جاناں بیگم نے کہا، ''اب ہر کوئی آزادی چاہتا ہے۔ بھارتی حکومت نے اپنے حالیہ اقدامات بالکل یکدم کیے۔ ہم شدید دھچکے کی کیفیت میں تھے۔‘‘
جاناں بیگم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم اس حد تک دھچکے اور صدمے کا شکار تھے کہ ہم یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ اپنا ردعمل کیسے ظاہر کریں۔ بھارتی حکام کہتے ہیں کہ کشمیر میں کوئی احتجاجی مظاہرے نہیں ہو رہے۔ لیکن یہاں تو کرفیو ہے۔ وہ ایک بار عوام کو احتجاج کا حق دیں تو سہی، پھر وہ دیکھ سکیں گے کہ کشمیری عوام کتنی شدت سے کیا محسوس کر رہے ہیں۔‘‘
رفعت فرید، پلوامہ (م م / ک م)
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔