1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'کشمیر میں اب سیاسی عمل کا آغاز ہوسکے گا'

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، سرینگر کشمیر
14 اکتوبر 2020

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی سابق وزیراعلی محبوبہ مفتی 14 ماہ قید میں رہنے کے بعد رہا کر دی گئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گرچہ راستہ دشوار گزار ہے تاہم کشمیریوں کے حقوق کے لیے جد و جہد جاری رہے گی۔

Indien Mehbooba Mufti Chief Ministerin von Jammu und Kaschmir
تصویر: Getty Images/S. Hussain

بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی کو منگل کی رات کو رہا گیا گیا۔ اس کی جانکاری جموں و کشمیر کے پرنسپل سکریٹری روہت کنسل نے اپنی ایک ٹویٹ سے دی تھی۔ محبوبہ مفتی پانچ اگست 2019 کو، جب کشمیر کو خصوصی اختیارات دینے والی آئین کی دفعہ 370 کو ختم کیا گیا تھا، تب سے حراست میں تھیں۔ انہیں سیاہ قانون پبلک سیفی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔

محبوبہ مفتی کی گرفتاری کو ان کی بیٹی التجا مفتی نے عدالت میں چیلنج کیا تھا اور سپریم کورٹ نے 29 ستمبر کو حکومت سے پوچھا تھا کہ آخر محترمہ مفتی کو کب تک حراست میں رکھا جائیگا۔ عدالت نے حکومت کو جواب دینے کے لیے 14 اکتوبر تک کا وقت دیا تھا لیکن حکومت نے انہیں 13 اکتوبر کی شام کو رہا کرنے کا اعلان کیا۔

رہائی کے بعد محترمہ مفتی نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر ایک آڈیو بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ایک برس سے بھی زیادہ وقت کی قید کے بعد بالآخر انہیں رہائی مل گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''اس پوری مدت کے دوران پانچ اگست کا یوم سیاہ ہم پر حملہ آور رہا۔ مجھے یقین ہے کہ جموں کشمیر کے تمام لوگ انہیں احساسات سے گزر رہیں ہوں گے۔ اس روز ہم سب کو جس انداز سے ذلیل و خوار کیا گیا ہے، اسے کوئی بھی بھلا نہیں سکتا۔''

انہوں نے مزید کہا، ''ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ دلی کے دربار نے ہم سے ایک غیر جمہوری اور غیر قانونی فیصلے کے تحت جو کچھ پانچ اگست کو چھینا ہے، اسے ہمیں واپس لینا ہے۔ کشمیر کے لیے ہی ہزاروں لوگوں نے اپنی جانیں قربان کی ہیں، ہمیں اپنی جد و جہد جاری رکھنی ہوگی۔ میں متفق ہوں کہ یہ راستہ آسان نہیں ہے لیکن ہمیں امید ہے کہ ہم اسے حاصل کر لیں گے۔''

لداخ میں بھارتی فوج کی بھاری تعیناتی، لوگوں میں پریشانی

02:52

This browser does not support the video element.

ان کی رہائی سے پہلے تک محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی ان کا ٹویٹر اکاؤنٹ ہینڈل کرتی تھیں۔ انہوں نے بھارتی میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ میری ماں کی رہائی کی خبر بہت پرسکون ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب ان کی ماں خود اپنا ٹویٹر اکاؤنٹ ہینڈل کر سکیں گی اور انہیں اس سے نجات ملے گی۔

محبوبہ مفتی کی رہائی پر ان کی جماعت پی ڈی پی کے ترجمان وجید پرا نے بھی خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ اب کشمیر میں سیاسی سرگرمیاں شروع ہوسکیں گی۔ ڈی ڈبلیو اردو سے خاص بات چیت میں وجید نے بتایا کہ بدھ کے روز پارٹی کی سربراہ محترمہ مفتی سے رہنماؤں کی ملاقات متوقع ہے اور بہت ممکن ہے کہ اس کے بعد وہ ایک پریس کانفرنس کریں۔

 ان کا کہنا تھا، ''اس سے ہماری جماعت اور کشمیریوں کو بھی ہمت ملے گی۔ وہ تو جمہوری اور سیاسی طور پر اپنی لڑائی جاری رکھیں گی۔ کافی وقت

 کے بعد کشمیریوں کو ہمت ملی ہے۔ اس کا بہت فرق پڑیگا اور کشمیر میں سیاست کا آغاز اب ہوگا۔'' 

ایک سوال کے جواب میں کہ کیا بھارت کشمیر میں سیاست کی اجازت دے گا؟ وحید پرا نے کہا کہ یہ تو ہمارا جمہوری حق ہے ہمیں اس کی اجازت لینے کی ضرورت تو ہے نہیں۔ ہم باہر نکلیں گے اور اپنے حق کی بات کریں گے۔  وہ کیا کرلیں گے؟ بند کریں گے، قید کردیں پھر دیکھا جائیگا۔''

کشمیر سے لداخ تک کا سفر

04:01

This browser does not support the video element.

وحید پرا کا کہنا تھا کہ کشمیر کی تمام جماعتیں پہلے ہی ایک ساتھ آچکی ہیں اور مستقبل کی حکمت عملی میں سب کا ایک ساتھ آنا بہت اہم ہے۔ ''اس وقت کشمیر کے لوگ خوف میں جی رہے ہیں اور سیاسی رہنماؤں کے باہر آنے سے انہیں ہمت ملے گی اور یہ رہنما ہی ان کی بات کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔''

مودی حکومت نے گزشتہ برس اگست میں کشمیر کے خصوصی آئینی اختیارات ختم کرنے اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا جب فیصلہ کیا تو کشمیری رہنماؤں کے رد عمل سے بچنے کے لیے محبوبہ مفتی، عمر عبداللہ اور فاروق عبداللہ سمیت ریاست کے سینکڑوں سیاسی رہنماوں اور سماجی کارکنان کو گرفتار کر لیا گیاتھا۔ حکومت نے کشمیر میں اضافی فوج تعینات کردی تھی اور سخت ترین کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا۔ ان میں سے بیشتر بڑے رہنما تو آزاد کر دیے گئے تاہم اب بھی سینکڑوں کی تعداد میں جیلوں میں ہیں۔

عمر عبداللہ نے بھی اپنی ایک ٹویٹ سے محبوبہ مفتی کی رہائی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حراست تمام جمہوری اصولوں کے خلاف تھی اور وہ ایک برس سے بھی زیادہ وقت سے حراست میں تھیں۔ 

کشمیر کے ہند نواز سیاسی رہنما ایک دوسرے کے سخت سیاسی حریف رہے ہیں تاہم مودی حکومت کے اقدامات کے بعد سب نے کشمیریوں کے حقوق کے لیے ایک ساتھ آنے کا اعلان کیا ہے۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ اتحاد کب تک چلتا ہے اور انتخابات میں یہ ایک دوسرے کی حمایت کر تے ہیں یا نہیں۔  

بدھ اور مسلم تہذيبوں سے آرستہ لداخ

04:24

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں