کشمیر میں بھارتی اقدامات: چین سے جڑے لداخ میں بھی نئی کشیدگی
2 اکتوبر 2019
بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں نئی دہلی حکومت کے تقریباﹰ دو ماہ قبل کیے گئے اقدامات کے بعد اب اس متنازعہ خطے کے ایک حصے لداخ میں بھی نئی کشیدگی اور سماجی تناؤ پیدا ہو چکے ہیں، جس کی سرحدیں چین سے ملتی ہیں۔
اشتہار
بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں لہہ سے بدھ دو اکتوبر کو موصولہ نیوز ایجنسی اے پی کی رپورٹوں کے مطابق لداخ چین کے ساتھ سرحد سے جڑا ہوا ریاست جموں کشمیر کا ایک ایسا انتہائی خوبصورت لیکن دور دراز حصہ ہے، جہاں پانچ اگست کو نئی دہلی میں مودی حکومت کے جموں کشمیر کی بھارتی آئین کے مطابق خصوصی حیثیت کے خاتمے کے اعلان کے بعد سے لے کر اب تک کافی زیادہ تناؤ پیدا ہو چکا ہے۔
مودی حکومت کے اعلان کے مطابق پاکستان اور بھارت کے مابین متنازعہ اس ریاست کے نئی دہلی کے زیر انتظام حصے کو مزید دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ یہ حصے جموں کشمیر اور لداخ کہلائیں گے اور دونوں ہی بھارت کے یونین علاقے ہوں گے۔
لیکن کشمیر ہی کے ایک حصے سے متعلق بھارت کا چین کے ساتھ تنازعہ بھی پایا جاتا ہے۔ اس تناظر میں جموں کشمیر کے چین کے ساتھ سرحد پر واقع حصے لداخ میں نئے کھچاؤ کا پیدا ہونا سیاسی اور جغرافیائی طور پر ایک یقینی سی بات تھی۔
لہہ اور کارگل پر مشتمل لداخ
اس بارے میں اے پی نے اپنے ایک تفصیلی مراسلے میں لکھا ہے کہ ریاست جموں کشمیر کے شمال مشرق میں واقع لداخ کا علاقہ مزید دو حصوں میں منقسم ہے۔ ان میں سے ایک لہہ کہلاتا ہے اور دوسرا کارگل۔ ضلع لہہ کی آبادی میں بدھ مت کے پیروکاروں کی اکثریت ہے جبکہ کارگل کی زیادہ تر آبادی مسلمان ہے۔ لداخ جموں کشمیر کا وہی علاقہ ہے، جہاں ماضی میں بھارتی اور چینی دستوں کے مابین وقفے وقفے سے سرحدی جھڑپیں بھی ہوتی رہی ہیں۔
کشمیر میں کرفیو، موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آج علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی پہلی برسی منائی جا رہی ہے۔ اس موقع پر کشمیر کے زیادہ تر حصوں میں کرفیو نافذ ہے اور موبائل سمیت انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی ہے۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں مشتعل مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
اس موقع پر بھارتی فورسز کی طرف سے زیادہ تر علیحدگی پسند لیڈروں کو پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا یا پھر انہیں گھروں پر نظر بند کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
بھارتی فورسز کی جانب سے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کے ساتھ ساتھ گولیوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
مظاہرین بھارت مخالف نعرے لگاتے ہوئے حکومتی فورسز پر پتھر پھینکتے رہے۔ درجنوں مظاہرین زخمی ہوئے جبکہ ایک کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
ایک برس پہلے بھارتی فورسز کی کارروائی میں ہلاک ہو جانے والے تئیس سالہ عسکریت پسند برہان وانی کے والد کے مطابق ان کے گھر کے باہر سینکڑوں فوجی اہلکار موجود ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
برہان وانی کے والد کے مطابق وہ آج اپنے بیٹے کی قبر پر جانا چاہتے تھے لیکن انہیں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
باغی لیڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دوران سکیورٹی اہلکاروں کی جوابی کارروائیوں میں اب تک ایک سو کے قریب انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
کشمیر کے علیحدگی پسند لیڈروں نے وانی کی برسی کے موقع پر ایک ہفتہ تک احتجاج اور مظاہرے جاری رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
ایک برس قبل آٹھ جولائی کو نوجوان علیحدگی پسند نوجوان لیڈر برہان وانی بھارتی فوجیوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
9 تصاویر1 | 9
اس علاقے میں نئی کشیدگی کا سبب نئی دہلی کے پانچ اگست کے فیصلے کے ساتھ کیا جانے والا وہ اعلان بھی ہے، جس پر مودی حکومت کے پروگرام کے مطابق 31 اکتوبر کو عمل درآمد ہو جائے گا۔
تب لداخ کا یہ علاقہ جموں کشیر سے کاٹ کر عملاﹰ علیحدہ کر دیا جائے گا اور ایک یونین علاقے کے طور پر براہ راست نئی دہلی کے انتظام میں آ جائے گا۔
مسلم اور بودھ آبادیوں کے مابین کھچاؤ
اس پیش رفت کے باعث لداخ میں نئی کشیدگی کا سبب اس خطے کی بودھ او مسلمان آبادی میں پائے جانے والے خدشات بھی ہیں۔
لداخ میں مسلمانوں اور بدھ مت کے پیروکاروں کے مابین ثقافتی اور سیاسی اختلافات تو ہمیشہ ہی سے تھے لیکن یہ تناؤ تشدد کی وجہ نہیں بنا تھا۔
اب لیکن لہہ اور کارگل کی ایک دوسرے سے مختلف ان اکثریتی آبادیوں کو یہ خوف بھی لاحق ہو چکا ہے کہ یکم نومبر کا دن ان کے لیے کون کون سی عملی تبدیلیاں اور ان دیکھے حقائق اپنے ساتھ لائے گا۔
لداخ سے متعلق نئی دہلی حکومت کے پانچ اگست کے اعلان پر اس خطے کی بودھ آبادی نے خوشی کا اظہار کیا تھا کیونکہ اس کا روایتی طور پر یہ دعویٰ رہا ہے کہ اس خطے میں زیادہ تر ملازمتیں اور مالی وسائل مسلم آبادی کے حصے میں ہی آتے ہیں۔ پھر لداخ کے ان بودھ باشندوں کے لیے یہ بات بھی تشویش کا باعث بن گئی کہ ان کے اکثریتی علاقے لہہ کی منفرد ثقافتی اور سماجی حیثیت بھی اس وقت خطرے میں پڑ جائے گی، جب عام بھارتی شہری، جن کی بہت بڑی اکثریت ہندو ہے، لہہ میں املاک خریدنے اور وہاں رہائش اختیار کرنے کے حقدار ہو جائیں گے۔
سیاچن گلیشیئر، دنیا کا بلند ترین میدان جنگ
لداخ کے اس علاقے کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ سیاچن گلیشیئر کا مشہور اور اسٹریٹیجک حوالے سے انتہائی اہم علاقہ بھی اس خطے میں ہے، جسے عسکری ماہرین 'دنیا کا بلند ترین میدان جنگ‘ بھی کہتے ہیں۔
اس گلیشیئر اور اس سے ملحقہ علاقے میں بھارت اور اس کے حریف ہمسایہ ملک پاکستان نے ہزاروں کی تعداد میں اپنے فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔
دنیا کا یہ بلند ترین میدان جنگ سطح سمندر سے 6,700 میٹر یا 22,000 فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور نئی دہلی اور اسلام آباد میں ملکی حکومتوں کے لیے یہ بات بھی اہم ہے کہ سیاچن گلیشیئر کے علاقے میں ان ممالک کے جتنے بھی فوجی ہلاک ہوئے ہیں، ان میں انتہائی شدید نوعیت کے موسمی حالات کے باعث ہونے والی ہلاکتیں مسلح فوجی جھڑپوں میں ہونے والے جانی نقصانات سے زیادہ تھیں۔
م م / ع ا (اے پی)
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔