کشمیر میں بھارتی چوکی تباہ، پانچ فوجی ہلاک: پاکستان کا دعویٰ
مقبول ملک اے پی
16 فروری 2018
پاکستانی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے کشمیر کے متنازعہ اور منقسم خطے کے بھارت کے زیر انتظام حصے میں ایک فوجی چوکی کو تباہ اور پانچ بھارتی فوجیوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ یہ کارروائی ایک ’اسکول وین پر حملے کے جواب‘ میں کی گئی۔
اشتہار
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے جمعہ سولہ فروری کو موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق ملکی فوج نے بتایا کہ دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین دیرینہ تناؤ اور کشیدگی کی سب سے بڑی وجہ اور ہمالیہ کے اس متنازعہ علاقے میں اس ’جوابی فوجی کارروائی‘ سے قبل کل جمعرات پندرہ فروری کو مبینہ طور پر بھارتی دستوں کی طرف سے ایک اسکول وین پر فائرنگ کی گئی تھی، جس کے نتیجے میں اس وین کا ڈرائیور ہلاک ہو گیا تھا۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور کے مطابق جس وقت کنٹرول لائن کے پار سے اس وین پر فائرنگ کی گئی تھی، اس وقت یہ وین اسکول کے بچوں کو لے کر جا رہی تھی۔ انہوں نے کہا، ’’ اس بھارتی فوجی کارروائی کے جواب میں پاکستانی فوج نے جمعرات پندرہ فروری کو رات گئے ’تتہ پانی‘ نامی گاؤں کے قریب بھارت کے زیر انتظام علاقے میں ایک فوجی چوکی کو تباہ کر دیا اور اس واقعے میں پانچ بھارتی فوجی مارے گئے۔‘‘
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پاکستانی فوج کے شعبے آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل، میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ’معصوم شہریوں کے خلاف بھارتی دہشت گردی‘ کا پاکستان کی طرف سے ہمیشہ جواب دیا جائے گا۔
دوسری طرف بھارت نے پاکستانی فوج کے اس موقف کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی فوج کے یہ دعوے غلط ہیں اور خود بھارت کی طرف سے بھی جمعرات پندرہ فروری کو کنٹرول لائن پر فائر بندی کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی گئی تھی۔
پاکستان اور بھارت کے ان فوجی دعووں اور جوابی دعووں کا پس منظر یہ ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایک اسکول وین پر بھارت کی مبینہ فائرنگ سے چند روز قبل بھارت نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اس کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ ویک اینڈ پر ایک فوجی کیمپ پر کیا گیا ایک مسلح حملہ ایسے عسکریت پسندوں نے کیا تھا، جن کا تعلق ’پاکستان میں جیش محمد‘ نامی ممنوعہ شدت پسند تنظیم سے تھا۔
گزشتہ ہفتے کے روز ان عسکریت پسندوں نے بھارتی فوج کے سنجوان کیمپ پر دھاوا بول دیا تھا، جس کے بعد ان کا وہاں موجود فوجیوں سے فائرنگ کا تبادلہ شروع ہو گیا تھا۔ اس لڑائی میں پانچ بھارتی فوجی اور ایک سویلین ہلاک ہوئے تھے۔ اس واقعے کے بعد نئی دہلی کی طرف سے اسلام آباد کو یہ تنبیہ بھی کی گئی تھی کہ پاکستان کو اس ’غلط مہم جوئی کی قیمت‘ چکانا ہو گی۔
بھارت نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایک اسکول وین پر اپنے فوجی دستوں کی طرف سے جس مبینہ فائرنگ کی تردید کی ہے، اسی فائرنگ کی آج جمعہ سولہ فروری کو خود پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی تک کی طرف سے بھی شدید مذمت کی گئی۔ پاکستانی وزیر اعظم نے ’اسکول کے بچوں کو ٹارگٹ کرتے ہوئے بلااشتعال بھارتی فائرنگ‘ کے اس واقعے کو ’جنیوا کنوینشن کی خلاف ورزی‘ قرار دیا۔
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔