کشمیر میں بھارت مخالف مسلح جدوجہد جاری رہے گی، صلاح الدین
مقبول ملک اے ایف پی
1 جولائی 2017
امریکا کی طرف سے حال ہی میں دہشت گرد قرار دیے گئے سرکردہ کشمیری عسکریت پسند رہنما سید صلاح الدین نے کہا ہے کہ متنازعہ خطے کشمیر کے نئی دہلی کے زیر انتظام حصے میں ان کی تنظیم کی ’بھارت کے خلاف مسلح جدوجہد‘ جاری رہے گی۔
اشتہار
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مظفر آباد سے ہفتہ یکم جولائی کے ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق سید صلاح الدین کو امریکی حکومت نے ابھی حال ہی میں، جب بھارتی وزیر اعظم مودی امریکا کا دورہ کرنے والے تھے، ایک ’عالمگیر دہشت گرد‘ قرار دے کر نہ صرف بلیک لسٹ کر دیا تھا بلکہ ان پر دیگر پابندیاں بھی عائد کر دی گئی تھیں۔
مظفر آباد میں آج یکم جولائی کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سید صلاح الدین نے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ اپنی ان قراردادوں پر عمل درآمد کو یقینی بنائے، جن کے تحت کشمیری عوام کو ان کا حق خود ارادیت دیا جانا چاہیے تاکہ وہ خود یہ فیصلہ کر سکیں کہ وہ اپنے لیے آزادی چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ الحاق۔
سید صلاح الدین بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں نئی دہلی کی حکمرانی کے خلاف مسلح تحریک چلانے والے عسکریت پسندوں کے سب سے بڑے گروپوں میں شمار ہونے والے گروہ حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر ہیں۔ انہیں امریکی حکومت نے گزشتہ ماہ کے اواخر میں اس وقت ایک ’عالمی دہشت گرد‘ قرار دے دیا تھا، جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں اپنے پہلے سرکاری دورے کے لیے واشنگٹن پہنچنے والے تھے۔
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
10 تصاویر1 | 10
حزب المجاہدین کے باغیوں کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کی تنظیم آئندہ بھی بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں نئی دہلی کے فوجی دستوں کے خلاف اپنی مسلح جدوجہد جاری رکھے گی۔
بھارت کا الزام ہے کہ پاکستان کشمیر کے اپنے زیر انتظام حصے سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جا کر مسلح کارروائیاں کرنے والے عسکریت پسندوں کی حمایت کرتا ہے لیکن پاکستانی حکومت اپنے خلاف نئی دہلی کے ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔
جموں کشمیر کی منقسم ریاست سات عشرے قبل تقریباﹰ برصغیر کی تقسیم کے وقت ہی سے پاکستان اور بھارت کے مابین ایک متنازعہ خطہ ہے۔ یہ دونوں جنوبی ایشیائی ملک ہمسائے ہونے کے علاوہ ایک دوسرے کے روایتی حریف بھی ہیں اور دو ایٹمی طاقتیں بھی۔
زیادہ تر کشمیر ہی کے مسئلے کے باعث ان دونوں ممالک کے مابین اب تک تین جنگیں بھی ہو چکی ہیں اور دونوں میں سے ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ دوسرے فریق نے کشمیر کے اپنے زیر انتظام حصے پر زبردستی قبضہ کر رکھا ہے۔ اسلام آباد اور نئی دہلی دونوں ہی پورے جموں کشمیر پر اپنی اپنی ملکیت کے دعوے کرتے ہیں۔