کشمیر میں جہاد کے خلاف انتباہ: کئی حلقوں کی طرف سے پذیرائی
عبدالستار، اسلام آباد
19 ستمبر 2019
کشمیری قوم پرستوں، خود مختاری کی حامی سیاسی تنظیموں اور کئی پاکستانی سیاسی پارٹیوں نے وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کا خیرمقدم کیا ہے کہ پاکستانی حکومت کشمیر میں جہاد کے لیے کسی کو کنٹرول لائن کے پار نہیں جانے دے گی۔
اشتہار
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے اپنا یہ بیان کل 18 ستمبر بدھ کے روز دیا تھا، جس میں انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جو کوئی بھی بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جہاد کے لیے جائے گا، وہ کشمیریوں اور پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی بھی اقدام کشمیریوں سے بہت بڑی دشمنی کے مترادف ہو گا اور بھارت اسے بہانہ بنا کر کشمیریوں پر مزید ظلم و ستم کرے گا۔
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ انیس سو اٹھاسی کے بعد سے یہ کسی بھی پاکستانی وزیر اعظم کا وہ پہلا بیان ہے، جس میں واضح طور پر بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جہاد کی کھل کر اور اعلانیہ مخالفت کی گئی ہے۔ اسلام آباد پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ 1988ء سے لے کر چند برس پہلے تک کشمیر میں جہادی تنظیموں کی سرپرستی کرتا رہا ہے۔
پاکستان نے لیکن ہمیشہ اپنے خلاف ایسے الزامات کی سختی سے تردید کی ہے اور اس کا موقف رہا ہے کہ اس نے ہمیشہ کشمیریوں کی صرف اخلاقی اور سفارتی محاذ پر ہی حمایت کی ہے اور کبھی کسی دہشت گرد تنظیم کی سر پرستی میں ملوث نہیں رہا۔
جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کا موقف
وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان پر پاکستان میں کئی حلقے حیران ہیں تو کئی اس کی تعریف بھی کر رہے ہیں۔ پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں اس مجموعی طور پر متنازعہ علاقے کی خود مختاری کے لیے سرگرم جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر ڈاکٹر توقیر گیلانی نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم تو ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں کہ جہادیوں کی در اندازی سے کشمیریوں کی جدوجہد کو نقصان پہنچتا ہے۔ بھارت اس کو استعمال کر کے ہماری جدوجہد آزادی کو بدنام کرتا ہے۔ ہم اس بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ریاستی پالیسی بھی ہونا چاہیے، صرف وزیر اعظم عمران خان کا ایک بیان نہیں۔‘‘
توقیر گیلانی کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں ہزاروں افراد نے راولا کوٹ اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے مختلف علاقوں میں ایک بار پھر جہاد کا نعرہ لگایا، ''میرا خیال ہے کہ یہ معاملہ حکومت کے علم میں ہے۔ یہاں تک کہ کچھ ریٹائرڈ فوجیوں نے بھی جہاد کی باتیں کی ہیں۔ ممکن ہے کہ انہیں کسی ادارے کی حمایت حاصل نہ ہو اور انہوں نے یہ باتیں اپنی ذاتی حیثیت میں کی ہوں۔ لیکن یہ بات باعث تشویش تو ہے۔ اس سے تو ہماری جدوجہد بدنام ہو گی اور بھارت اس جدوجہد پر دہشت گردی کا لیبل لگا کر کشمیریوں پر مزید ظلم کرے گا۔ اس طرح عالمی برادری کے سامنے ہمارا مقدمہ کمزور پڑ جائے گا۔‘‘
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا دباؤ بھی
پاکستان پر اس وقت فنانشل ایکشن ٹاسک فورس یا ایف اے ٹی ایف کی طرف سے بھی سخت دباؤ ہے کہ وہ اپنے ہاں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔
بصورت دیگر پاکستان کو بلیک لسٹ کیا جا سکتا ہے۔ معروف کشمیری دانشور پروفیسر خلیق کے خیال میں بنیادی طور پر یہ دباؤ ہی وہ وجہ ہے، جس نے عمران خان کو یہ بیان دینے پر مجبور کیا۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس وقت اگر کوئی پاکستانی بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جا کر جہاد کرتا ہے، تو بھارت اسے پکڑ کر دینا کو دکھا دے گا کہ پاکستان ہی یہ دہشت گردی کر رہا ہے، جس سے پاکستان کے لیے بہت سے مسائل پیدا ہوں گے اور اس کی مالی مشکلات میں بھی اضافہ ہوگا۔ پاکستان اس وقت یہ تاثر نہیں دینا چاہتا کہ وہ کسی بھی طرح کی جہادی سرگرمی کی سر پرستی کر رہا ہے۔ کیونکہ یوں اسلام آباد پر پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں۔ بہرحال، یہ بیان مثبت ہے اور ہمیں اس کو ریاستی پالیسی کے طور پر اختیار کرنا چاہیے۔‘‘
عمران خان کے دورہ امریکا کے دوران کچھ طے ہوا تھا؟
پاکستان میں کچھ حلقے پہلے ہی عمران خان پر الزام لگا رہے ہیں کہ انہوں نے کشمیر کا مبینہ طور پر سودا کر لیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک رہنما اور سابق وزیر مملکت آیت اللہ درانی کے خیال میں کشمیر کے مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ضرور نکال لیا گیا ہے۔ اسی لیے جہاد کے خاتمے کی بات کی جا رہی ہے۔
کشمیر میں کرفیو، موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آج علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی پہلی برسی منائی جا رہی ہے۔ اس موقع پر کشمیر کے زیادہ تر حصوں میں کرفیو نافذ ہے اور موبائل سمیت انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی ہے۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں مشتعل مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
اس موقع پر بھارتی فورسز کی طرف سے زیادہ تر علیحدگی پسند لیڈروں کو پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا یا پھر انہیں گھروں پر نظر بند کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
بھارتی فورسز کی جانب سے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کے ساتھ ساتھ گولیوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
مظاہرین بھارت مخالف نعرے لگاتے ہوئے حکومتی فورسز پر پتھر پھینکتے رہے۔ درجنوں مظاہرین زخمی ہوئے جبکہ ایک کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
ایک برس پہلے بھارتی فورسز کی کارروائی میں ہلاک ہو جانے والے تئیس سالہ عسکریت پسند برہان وانی کے والد کے مطابق ان کے گھر کے باہر سینکڑوں فوجی اہلکار موجود ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
برہان وانی کے والد کے مطابق وہ آج اپنے بیٹے کی قبر پر جانا چاہتے تھے لیکن انہیں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
باغی لیڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دوران سکیورٹی اہلکاروں کی جوابی کارروائیوں میں اب تک ایک سو کے قریب انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
کشمیر کے علیحدگی پسند لیڈروں نے وانی کی برسی کے موقع پر ایک ہفتہ تک احتجاج اور مظاہرے جاری رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
ایک برس قبل آٹھ جولائی کو نوجوان علیحدگی پسند نوجوان لیڈر برہان وانی بھارتی فوجیوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
9 تصاویر1 | 9
انہوں نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''وزیر اعظم عمران خان نے اپنے دورہ امریکا کے دوران کشمیر کا معاملہ طےکر لیا ہو گا۔ میرا خیال ہے کہ خود مختار کشمیر کی بات کی گئی ہے۔ اس لیے اب جہاد کی ضرورت نہیں ہے۔ تو یہ صرف عمران خان کا اپنا بیان نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ وہ مقتدر قوتوں کے بغیر کچھ نہیں کہتے۔ یہ ریاستی اداروں اور عمران خان کا مشترکہ بیان ہے، جو موجودہ حالات میں پاکستان کے لیے بہتر ہے۔‘‘
آیت اللہ درانی کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اس جہادی مسئلے سے باہر آنا چاہیے، ''ہمیں پہلے کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ اور دیگر اداروں میں بات چیت کے ذریعے اٹھانا چاہیے اور مسئلہ حل نہ ہو تو پھر آخری حد کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔‘‘
دوسری طرف اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے پاکستانی تجزیہ نگار ایوب ملک کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں امن کی بات کرنے والے لوگ کم ہیں۔ انہوں نے بتایا، ''اگر پاکستان سے جہادی تنظیمیں جہاد کا نعرہ نہیں لگاتی تو اس سے موجودہ کشیدگی کو کم کرنے میں کسی حد تک مدد ملے گی۔ لیکن جہادیوں کی کسی دخل اندازی کی صورت میں بھارت کی طرف سے بھی بھر پور جواب آ سکتا ہے، جس سے پورے خطے میں آگ لگ سکتی ہے۔ اس لیے ہمیں جذباتی انداز میں سوچنے کے بجائے مسئلے کا پر امن حل نکالنا چاہیے۔ ایسی صورت میں یہ بیان مثبت ہے کیونکہ جہادی تنظیموں کی وجہ سے ہم نے بھی نقصان اٹھایا ہے اور اس خطے نے بھی۔ حکومت نہ صرف ایسی کسی در اندازی کو ناممکن بنائے بلکہ ایسی تنظیموں پر بھی سخت نظر رکھے۔‘‘
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔