بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پمپور کے وسیع و عریض کھیتوں میں کبھی ہر طرف ارغوانی رنگ کے پھول ہی نظر آتے تھے لیکن اب دنیا کے مہنگے ترین مصالحے زعفران کی فصل بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
اشتہار
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ دو عشروں سے موسم خشک ہوتا جا رہا ہے اور موسمیاتی تبدیلیاں براہ راست دنیا کے مہنگے ترین مصالحے زعفران کی پیداوار کو متاثر کر رہی ہیں۔ کشمیر میں زعفران ہی وہ فصل ہے، جس نے ڈھائی ہزار سال پہلے یہاں کے لوگوں کے لیے دولت کے دروازے کھولے تھے۔ جموں و کشمیر کے مغرب میں واقع قصبہ پمپور زعفران کی پیداوار کے لیے مشہور ہے اور اسی مناسبت سے اسے کشمیر کا 'زعفرانی قصبہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس علاقے سے تعلق رکھنے والے عبدالاحد میر کہتے ہیں، ''ان کھیتوں کو سونے کی کانیں سمجھا جاتا تھا۔‘‘
میر کا خاندان کئی نسلوں سے اس کاروبار سے منسلک ہے۔ وہ ماضی اور حال میں فرق بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں، ''میرے بچپن میں ہمیں پھول جمع کرنے کے لیے کم از کم اسی افراد درکار ہوتے تھے اور وہ ایک ہفتے تک یہ کام کرتے تھے۔ آج میرے خاندان کے چھ لوگ ایک دن میں ہی سارے پھول جمع کر لیتے ہیں۔‘‘
اس خطے میں آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے بارشیں کم اور درجہ حرارت میں اضافہ ہونا شروع ہو چکا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ زعفران کے کھیت پیاسے ہی رہ جاتے ہیں۔ دوسری جانب ہمالیہ کے خطے میں گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں اور پانی کا وہ بہاؤ، جو مختلف ندی نالوں میں سارا سال رہتا تھا، اب تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے۔
ایک کلوگرام زعفران کے لیے تقریباﹰ ایک لاکھ ساٹھ ہزار پھولوں کو جمع کرنا پڑتا ہے۔ مقامی مارکیٹ میں ایک کلوگرام زعفران کی قیمت تقریباﹰ تیرہ سو پچاس امریکی ڈالر کے برابر ادا کی جاتی ہے۔
مسلسل کم ہوتی ہوئی پیداوار
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سن دو ہزار اٹھارہ میں اس 'سرخ سونے‘ کی فی ہیکڑ پیداوار ایک اعشاریہ چار کلوگرام رہی۔ اگر اس کا موازنہ سن انیس سو اٹھانوے میں فی ہیکٹر پیداوار سے کیا جائے، تو یہ مقدار نصف ہو چکی ہے۔ ایک دوسرے کاشت کار محمد رمضان کا کہنا تھا کہ ان کی زمین پر رواں سال صرف تیس گرام زعفران پیدا ہوا جبکہ بارہ برس قبل وہ اسی زمین سے تقریباﹰ دو کلوگرام زعفران حاصل کرتے تھے۔
زعفران کے پھول خزاں کے اختتام پر تقریباﹰ دو ہفتوں کے اندر اندر چُنے جاتے ہیں لیکن رواں برس کورونا وائرس کی وبا اور کشمیر میں سیاسی کشیدگی کے بعد حکومت کی طرف سے نافذ کردہ لاک ڈاؤن نے بھی اس فصل کی پیداوار کو متاثر کیا ہے۔
اشتہار
زعفران کا استعمال
مؤرخین کے مطابق کشمیر میں زعفران کی کاشت کم از کم بھی پانچ سو سال قبل از مسیح سے جاری ہے۔ مقامی سطح پر زعفران مختلف کھانوں کے ساتھ ساتھ قہوے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے لیکن ایسا شادیوں جیسے خاص مواقع پر ہی ہوتا ہے۔
عالمی منڈی میں کشمیری زعفران کو نہ صرف کھانوں بلکہ میک اپ مصنوعات میں بھی استعمال کیا جاتا ہے اور اس کی قیمت دس ہزار ڈالر فی کلوگرام تک ادا کی جاتی ہے۔ دنیا میں نوے فیصد زعفران ایران میں پیدا ہوتا ہے لیکن کشمیری زعفران کو اس کے گہرے رنگ اور بہتر خوشبو کی وجہ سے اعلیٰ معیار کا حامل قرار دیا جاتا ہے۔
بھارتی حکومت کا 'ناکام منصوبہ‘
سن دو ہزار دس میں بھارتی حکام نے موسمیاتی تبدیلیوں کا ادراک کرتے ہوئے کسانوں کے لیے چون ملین ڈالر کا ایک فنڈ قائم کیا تھا اور اس کا مقصد نئی زرعی ٹیکنالوجی متعارف کرانا تھا۔بھارتی حکومت کے مطابق یہ ایک کامیاب پروگرام تھا اور اس طرح کشمیر کی سینتیس سو ایکڑ زمین کو زعفران کے کھیتوں میں تبدیل کیا گیا لیکن مقامی کسان اس حکومتی دعوے سے اتفاق نہیں کرتے۔
مقامی کسانوں کے مطابق اس پروگرام کے تحت پلاسٹک کے باریک پائپ کھیتوں تک لائے گئے تھے لیکن ان کے ذریعے کھیتوں تک پانی لانا ہی ایک مشکل امر ہے۔ کچھ دیگر کسانوں کا کہنا ہے کہ اس سکیم کے تحت زعفران کے نئے بیج متعارف کرائے گئے اور انہوں نے ان کی فصلوں کو تباہ کر کے رکھ دیا۔
مقامی کسان جلال الدین وانی کا کہنا ہے کہ کچھ کسان اپنی زمین کو باغات میں تبدیل کر رہے ہیں کیونکہ سیب کے درختوں کو کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کی مداخلت ناکام ہوئی ہے لیکن کسان اب بھی روایتی طریقے سے زیادہ فصل حاصل کر سکتے ہیں، ''اب بھی فصلوں کو دوبارہ جاندار بنانے کی کچھ امید تو باقی ہے۔‘‘
ا ا / م م ( اے ایف پی)
کشمیر میں موسم خزاں کے رنگ و آہنگ
عام طور پرموسم خزاں کو حزن و ملال کا سیزن کہا جاتا ہے۔ لیکن قدرتی حسن و جمال سے مالا مال خطہ کشمیر کا موسم خزاں اتنا دلکش، دل فریب اور خوبصورت ہے کہ ہر ایک کو بے ساختہ اپنی طرف متوجہ کرلیتا ہے۔ صحافی رؤف فدا کی تصاویر
تصویر: Rouf Fida/DW
کشمیر میں موسم خزاں کے رنگ
کشمیر کے باغات ابھی سیب، انار، پیچ اور آڑو جیسے رنگ برنگے پھلوں سے خالی ہی ہوئے تھے کہ موسم خزاں نے سبز پتوں میں لال پیلے کا پر حسن امتزاج پیدا کر دیا۔ پت جھڑ کے رنگوں کی پر بہار رونقیں چہار جانب سے ایسے جلوے بکھیر رہی ہیں کہ وادی کشمیر کا منظر نکھر گیا ہے۔ حسن و جمال سے پر یہ نظارے سبھی کو اپنی جانب دعوت نظارہ دے رہے ہیں۔
تصویر: Rouf Fida/DW
کشمیر میں موسم خزاں کے رنگ
خزاں میں چنار کے درختوں سے گرنے والے پتے اپنی سرگوشی سے فضا میں عجیب و غریب ارتعاش پیدا کرتے ہیں۔ پہاڑوں کے دامن اور میدانی علاقوں کے چنار کے باغوں میں درختوں سے گرتے نارنگی اور لال پیلے پتوں نے زمین پر ایک انوکھی قالین بچھارکھی ہے۔ ایسے نت نئے حسین مناظر کہ جن پر عقل انسانی رشک کرے اور حیرت کی دنیا میں کھو کر رہ جائے۔
تصویر: Rouf Fida/DW
کشمیر میں موسم خزاں کے رنگ
جنت نظیر کشمیر قدرتی حسن و جمال کے نظاروں سے مالا ہے۔ اس کے لہلہاتے سرسبز پہاڑ، آبشاریں اور خوبصورت جنگلات اسے ممتاز بناتے ہیں۔ اس کے موسم بھی اپنی مثال آپ ہیں اور خزاں کا اپنا ایک منفرد رنگ ہے۔
تصویر: Rouf Fida/DW
کشمیر میں موسم خزاں کے رنگ
سیاح موسم خزاں میں چنار کے درختوں کے سائے میں تصویریں لیتے ہوئے۔ خزاں کے موسم میں بھی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد کشمیر صرف اس لیے آتی ہے تاکہ وہ اس کے رنگ، خوشبو اور مہک سے لطف اندوز ہوسکے۔
تصویر: Rouf Fida/DW
کشمیر میں موسم خزاں کے رنگ
ڈل جھیل کے کنارے بلند و بالا چنار کے درختوں سے آراستہ ہیں۔ اس سے پہلے کہ انتہائی سرد موسم میں جھیل سفید چادر میں ملبوس ہوجائے، ان درختوں کے پتوں نے اسے عروسی لباس عطا کر رکھا ہے۔ خزاں میں بھی اسے نت نئی رنگت نصیب ہوتی ہیں جس کی وجہ سے اس کی رونقیں تر و تازہ ہیں۔
تصویر: Rouf Fida/DW
کشمیر میں موسم خزاں کے رنگ
سرینگر کی ڈل جھیل سیاحت کے لیے معروف ہے جو موسم گرما میں شکاروں کی چہل پہل سے آباد رہتا ہے۔ خزاں آتے آتے یہ سیاحتی سرگرمیاں ماند پڑنے لگتی ہیں۔ لیکن اس کے ساکت پانی پر تھر تھراتے گیت اور دور دور تک پھیلی دھند ایک نئی دنیا کا پتہ دیتی ہے۔ یخ بستہ سردی میں جب اس کا پانی برف بن جاتا ہے تو یہ کھیل کے میدان میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
تصویر: Rouf Fida/DW
کشمیر میں موسم خزاں کے رنگ
کشمیر یونیورسٹی چنار کے اپنے منفرد درختوں کے لیے معروف ہے۔ موسم گرما میں جہاں یہاں کی ہریالی قابل دید ہوتی ہے وہیں خزاں میں اس کی منفرد رنگت۔ یونیورسٹی کے تمام شعبے چنار کے درختوں کے درمیان انہیں کے سائے میں پروان چڑھے ہیں۔
تصویر: Rouf Fida/DW
کشمیر میں موسم خزاں کے رنگ
کشمیر یونیورسٹی کا یہ نسیم باغ چنار کے اپنے قدیم ترین درختوں کے لیے معروف ہے۔ کشمیر میں یہ مغلوں کا قدیم ترین باغ ہے جسے سب سے پہلے مغل شہنشاہ اکبر نے 1588 میں تعمیرکرایا تھا۔ پھر شاہ جہاں نے 1686 میں تقریباً 1200 سو مزید چنار کے درخت لگوائے۔ اس وقت یہاں تقریبا 700 ہی درخت رہ گئے ہیں۔
تصویر: Rouf Fida/DW
کشمیر میں موسم خزاں کے رنگ
نسیم باغ اپنے نا م کی طرح اسم بامسمی ہے۔ یونیورسٹی اب اسے چنار ہریٹیج پارک کے طور پر فروغ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔
تصویر: Rouf Fida/DW
کشمیر میں موسم خزاں کے رنگ
موسم گرما میں چنار کے درخت اپنی ہریالی اور پرسکون سائے کے لیے معروف ہیں، تاہم ان کے دیدار کے لیے لوگ موسم خزاں میں زیادہ آتے ہیں۔ اکتوبر کے وسط سے نومبر کے اواخر تک یہ اپنے نت نئے رنگوں کے ساتھ نیا روپ اختیار کرتے ہیں۔
تصویر: Rouf Fida/DW
کشمیر میں موسم خزاں کے رنگ
کشمیر کے شالیمار باغ کا یہ ایک ڈرون شاٹ ہے۔ مغل شہنشاہ جہانگیر نے سن 1619 میں یہ باغ اپنی ملکہ نور جہاں کے لیے لگوایا تھا۔ یہ باغ بھی اپنے شاندار چنار کے درختوں اور آبشاروں کے لیے مشہور ہے، جس کے دیدارکے لیے بڑی تعداد میں سیاح آتے ہیں۔
تصویر: Rouf Fida/DW
کشمیر میں موسم خزاں کے رنگ
جنت نظیر کشمیر قدرتی حسن و جمال کے نظاروں سے مالا ہے۔ اس کے لہلہاتے سرسبز پہاڑ، آبشاریں اور خوبصورت جنگلات اسے ممتاز بناتے ہیں۔ اس کے موسم بھی اپنی مثال آپ ہیں اور خزاں کا اپنا ایک منفرد رنگ ہے۔
تصویر: Rouf Fida/DW
کشمیر میں موسم خزاں کے رنگ
بالی وڈ کے بعض فلم ہدایت کاروں نے کشمیر کے موضوع پر اپنی فلموں کو موسم خزاں میں شوٹ کیا۔ کئی فلموں میں چنار کے زرد اور لہو آلود پتوں کو وادی کشمیر کے تنازعے کو دکھانے کے لیے بطور استعارہ استعمال کیا گیا ہے۔ متن صلاح الدین زین