کشمیر میں شٹ ڈاؤن، مقامی معیشت کو ڈیڑھ بلین ڈالر کا نقصان
19 نومبر 2019
بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے کے مودی حکومت کی طرف سے اگست میں کیے گئے اعلان کے بعد سے صرف کشمیر میں سکیورٹی شٹ ڈاؤن سے مقامی معیشت کو تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کے برابر نقصان ہو چکا ہے۔
اشتہار
پاکستان اور بھارت کے درمیان اس متنازعہ خطے کے بھارت کے زیر انتظام حصے میں اقتصادی شعبے کی نمائندہ مرکزی تنظیم نے آج منگل کے روز بتایا کہ پانچ اگست کو نئی دہلی حکومت نے جموں کشمیر کے اپنے زیر انتظام حصے کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کا جو اعلان کیا تھا، اس پر اکتوبر کے آخر میں عمل درآمد ہو گیا تھا۔
اب اس خطے کو جموں کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر کے ان کو بھارت کے یونین علاقے بنایا جا چکا ہے۔
کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطابق صرف کشمیر میں اس دوران پانچ اگست سے مقامی معیشت کو بھارتی حکومت کے اقدامات سے ہونے والے اقتصادی نقصانات کی مالیت ایک بلین ڈالر سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔
ان نقصانات کی اہم ترین وجہ کشمیر میں اضافی بھارتی دستوں کی تعیناتی کے بعد وہ سکیورٹی لاک ڈاؤن اور کاروباری شعبے کی بندش بنی، جو مجموعی طور پر مہینوں جاری رہی اور جزوی طور پر اب بھی جاری ہے۔
سو ارب روپے کے اقتصادی نقصانات
کشمیر ایوان صنعت و تجارت کے سینئر نائب صدر ناصر خان کے مطابق پانچ اگست سے لے کر ستمبر تک کشمیر کو ہونے والے اقتصادی نقصانات کی مالیت 100 ارب بھارتی روپے سے تجاوز کر چکی تھی۔ یہ رقم 1.4 ارب امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے۔
کشمیر میں کرفیو، موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آج علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی پہلی برسی منائی جا رہی ہے۔ اس موقع پر کشمیر کے زیادہ تر حصوں میں کرفیو نافذ ہے اور موبائل سمیت انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی ہے۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں مشتعل مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
اس موقع پر بھارتی فورسز کی طرف سے زیادہ تر علیحدگی پسند لیڈروں کو پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا یا پھر انہیں گھروں پر نظر بند کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
بھارتی فورسز کی جانب سے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کے ساتھ ساتھ گولیوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
مظاہرین بھارت مخالف نعرے لگاتے ہوئے حکومتی فورسز پر پتھر پھینکتے رہے۔ درجنوں مظاہرین زخمی ہوئے جبکہ ایک کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
ایک برس پہلے بھارتی فورسز کی کارروائی میں ہلاک ہو جانے والے تئیس سالہ عسکریت پسند برہان وانی کے والد کے مطابق ان کے گھر کے باہر سینکڑوں فوجی اہلکار موجود ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
برہان وانی کے والد کے مطابق وہ آج اپنے بیٹے کی قبر پر جانا چاہتے تھے لیکن انہیں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
باغی لیڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دوران سکیورٹی اہلکاروں کی جوابی کارروائیوں میں اب تک ایک سو کے قریب انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
کشمیر کے علیحدگی پسند لیڈروں نے وانی کی برسی کے موقع پر ایک ہفتہ تک احتجاج اور مظاہرے جاری رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
ایک برس قبل آٹھ جولائی کو نوجوان علیحدگی پسند نوجوان لیڈر برہان وانی بھارتی فوجیوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
9 تصاویر1 | 9
ناصر خان کے مطابق المیہ یہ ہے کہ کشمیر میں نہ صرف سکیورٹی لاک ڈاؤن اور انٹرنیٹ بلیک آؤٹ ان بےتحاشا اقتصادی اور کاروباری نقصانات کی وجہ بنے بلکہ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ رابطے منقطع ہونے کی وجہ سے ایوان صنعت و تجارت اپنے ارکان سے رابطے بھی نہ کر سکا کہ متاثرہ کاروباری حلقوں سے اس شٹ ڈاؤن کے مالیاتی اثرات کے تخمینے حاصل کیے جاتے۔
کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر نائب صدر کے مطابق، ''یہ معاشی نقصانات اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا مجموعی اندازہ لگانا بھی ہمارے بس کی بات نہیں رہی۔ ہم عدالت سے درخواست کریں گے کہ وہ کوئی ایسی بیرونی ایجنسی نامزد کرے، جو ان نقصانات کا درست اندازہ لگا سکے۔‘‘
زیادہ تر انٹرنیٹ رابطے آج بھی منقطع
پانچ اگست کے بعد سے اب تک بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سکیورٹی شٹ ڈاؤن میں کمی تو آئی ہے مگر معمول کی عوامی اور کاروباری زندگی ابھی تک بحال نہیں ہو سکی۔ وادی کے عوام کے بیرونی دنیا سے انٹرنیٹ رابطے آج بھی زیادہ تر معطل ہیں۔
نیوز ایجنسی روئٹرز نے سری نگر سے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ اس شٹ ڈاؤن سے سب سے زیادہ نقصان تجارتی، سیاحتی اور زرعی شعبوں کو ہوا ہے۔ کشمیر کے سب سے بڑے شہر سری نگر میں اپنا ایک ہوٹل چلانے والے ویویک وزیر نے روئٹرز کو بتایا، ''مجھے تو آئندہ کئی مہینوں تک کشمیر میں استحکام پیدا ہوتا نظر نہیں آتا۔ ہر جگہ بےحد بےیقینی پائی جاتی ہے اور ناقابل تصور اقتصادی نقصانات کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔‘‘
م م / ع ح (روئٹرز)
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔