کشمیر میں فوج کم کرنے کا بھارتی منصوبہ
14 فروری 2011بھارتی زیرانتظام کشمیر میں 1980ء کے عشرے سے بڑی تعداد میں فوج تعینات ہے۔ بھارت کی طرف سے مسلمان اکثریت والے اس خطے میں فوج کی نفری میں یہ بھاری اضافہ عسکریت پسندوں کی طرف سے شروع کی جانے والی علیحدگی کی مسلح تحریک کے بعد کیا گیا تھا۔
سال 2010ء میں جون سے ستمبر کے اس خطے میں کم از کم 110 شہری ہلاک کردیے گئے۔ زیادہ تر نوجوانوں پر مشتمل یہ افراد بھارت مخالف مظاہروں کے دوران بھارتی سکیورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور کارکنان کی طرف سے ان واقعات کی ذمہ داری بھارتی سکیورٹی فورسز پر عائد کرتے ہوئے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
بھارتی خبررساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے سیکرٹری داخلہ گوپال پِلائے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے، " میرے خیال میں ہم زیادہ نہیں تو 10 بٹالین واپس بلا سکتے ہیں۔ صورتحال سے قطع نظر میں 10 بٹالین وہاں سے نکال سکتا ہوں اور اس سے صورتحال پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔" بھارتی سیکرٹری داخلہ گوپال پلائے کے بقول اس وقت ریاست جموں وکشمیر میں پیراملٹری فورسز کے 70 بٹالین تعینات ہیں۔
بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں گزشتہ برس کے بھارت مخالف مظاہروں کو روکنے کے لیے حکومت کی طرف سے کیے جانے والے وعدوں میں سے ایک اہم وعدہ فوج کی کمی کا بھی تھا۔
کشمیر کا متنازعہ خطہ دو حصوں میں تقسیم ہے۔ اس میں سے ایک حصہ بھارت کے جبکہ دوسرا پاکستان کے زیرانتظام ہے۔
رپورٹ: افسراعوان
ادارت: کشور مُصطفیٰ