کشمیر میں قیام امن:’طاقت کا استعمال ترک کرنا ہوگا‘
4 جون 2010جمعرات کو جاری کی گئی اس رپورٹ میں کشمیرکا مسئلہ حل کرنے کے لئے کئی اہم تجاویزمرتب کی گئی ہیں۔ ’امن کی طرف اقدام: کشمیرسب سے پہلے‘ کے نام سے جاری کی گئی اس رپورٹ کا اجراء اُس وقت کیا گیا ہے، جب ممبئی حملوں کی نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات پرتناؤ کی چادر تنی ہوئی ہے۔ بھارتی حکومت نے سن 2008 میں ہونے والے ممبئی حملوں کے بعد پاکستان کے ساتھ جامع مذاکرات کا سلسلہ منقطع کر دیا تھا، جس کے اب کہیں جا کر دوبارہ ان مذاکرات کے شروع ہونے کے آثار پیدا ہونے لگے ہیں۔
آئی سی جی کی ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا، ثمینہ احمد کے مطابق پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی کے نتیجے میں کشمیرمیں سیاسی اوراقتصادی طور پر نقصان ہو رہا ہے۔ ادارے کی ویب سائٹ پرثمینہ احمد نے لکھا : ’’ کشیدہ ماحول کی وجہ سے منقسم کشمیر کے باسیوں پرمنفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔‘‘
برسلزمیں قائم اس بین الاقوامی ادارے نے بھارتی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ بھارتی زیرانتظام کشمیرمیں مسلح تحریک کےخاتمے کے لئے فوجی طاقت استعمال کرنے کے بجائے کوئی مؤثر حکمت عملی تریب دی جائے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نئی دہلی، اپنے زیر انتظام کشمیرمیں اقتصادی صورتحال کو بہتر بنائے، جو پرتشدد واقعات کی وجہ سے شدید متاثر ہوچکی ہے۔ ادارے نے کہا:’’ یہ بھارت کے مفاد میں ہے کہ وہاں کے لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے پرخلوص طریقے سے کام کرے نہ کہ تسلط کے ذریعے۔‘‘
اس رپورٹ میں پاکستان کو بھی مشورہ دیا گیاہے کہ پاکستانی زیر انتظام کشمیرمیں بہترسیاسی فضا قائم کی جائے، اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وہاں کی عسکری تنظیموں کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کوئی تعاون حاصل نہ ہو۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ممبئی حملوں کی طرح کا کوئی نیا حملہ دو طرفہ تعلقات کو شدید نقصان پہنچاتے ہوئے ہمسایہ ممالک کو جنگ کے دہانے پرلا سکتا ہے۔
بھارت کے زیرانتظام جموں وکشمیر میں گزشتہ بیس سالوں سے جاری مسلح تحریک کے دوران، سرکاری اعداد وشمار کے مطابق کم ازکم 47 ہزارافراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں ہلاکتوں کی یہ تعداد دوگنا بتاتی ہیں۔
پاکستانی حکومت ایسے تمام ترالزامات کو مسترد کرتی ہے کہ بھارتی زیرانتظام کشمیرمیں علٰیحدگی پسندوں کواسلام آباد کی حمایت حاصل ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: عابد حسین