1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

مسجد، مولوی، مدرسے اور میڈیا سب کیسے خاموش کیے گئے؟

29 اپریل 2022

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی مرکزی جامع مسجد میں ایک مرتبہ پھر جمعتہ الوداع اور شب قدر کے موقعوں پر اجتماعات، نماز اور عبادت پر حکام نے پابندی عائد کردی، جس سے عقیدت مندوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی ہے۔

Indien Jamia Masjid-Moschee in Kaschmir ist geschlossen worden
تصویر: Mukhtar Khan/AP Photo/picture alliance

کشمیر کی اہم سیاسی اور مذہبی جماعتوں اور عقیدت مندوں نے انتظامیہ کے اس اقدام کو ‘‘مذہبی معاملات میں مداخلت'' بتایا جبکہ خطے کی سب سے پرانی جماعت نیشنل کانفرنس نے بھارتی حکومت کے ‘نارملسی' کے دعوے پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔

دارالحکومت سری نگر میں قائم انجمن اوقاف جامع مسجد نے اپنے ایک تازہ بیان میں اس بات کی تصدیق کی کہ حکام نے مرکزی مسجد میں جمعتہ الوداع اور شب قدر کے اجتماعات کی اجازت نہیں دی ہے۔

انجمن اوقاف کے مطابق ‘‘سری نگر ضلع میجسٹریٹ کی سربراہی میں انتظامیہ اور پولیس کی ایک ٹیم نے ستائیس اپریل کو افطاری کے بعد جامعہ مسجد کا رخ کیا اور انجمن اوقاف کے ممبران پر یہ واضح کردیا کہ جامعہ مسجد کے اندر شب قدر اور رمضان کے آخری جمعہ کے اجتماعات اور نماز کی اجازت نہیں دی جائے گی۔''

گزشتہ تین برسوں سے کشمیر کی مساجد' مدارس' مولوی اور ممبر خاموش پڑے ہیں۔ کیا کشمیر کی مسجدوں' ممبروں' مدرسوں اور مولویوں کو حکومتی پالیسی کے تحت خاموش کر دیا گیا ہے؟ ڈوئچے ویلے نے اس سکوت کی وجوہات جاننے کے لئے مختلف طبقہء فکر سے تعلق رکھنے والے افراد سے رائے جاننے کی کوشش کی۔

سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ اور ان کے فرزند عمر عبداللہ کی سربراہی والی جماعت جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس نے انتظایہ کی جانب سے جامع مسجد میں نماز اور عبادت کی اجازت نہ دینے کی شدید الفاظ میں مزمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے انتظامیہ کے ‘نارملسی' دعوؤں پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔

جمعرات کو سری نگر میں واقع نیشنل کانفرنس کے صدر دفتر نوائے صبح میں پارٹی کے نائب صدر عمر عبداللہ نے یہ سوال پوچھا: ‘‘اگر کشمیر میں سب کچھ نارمل ہے تو پھر عقیدت مندوں کو جامع مسجد کے اندر داخل ہونے کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی؟'' انہوں نے انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ مقدس ایام کے موقع پر عقیدت مندوں کے جذبات کی قدر کرے' جامعہ مسجد کے دروازے عقیدت مندوں کے لئے کھول دئے جائیں۔

تصویر: Mukhtar Khan/AP Photo/picture alliance

اگست دو ہزار انیس میں جموں و کشمیر کی داخلی خودمختاری' ریاستی اور خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد حکام نے اس مسجد میں ایک سو بیس سے بھی زائد ہفتوں تک جمعہ کی اجتماعی نماز کی اجازت نہیں دی اور نہ ہی حریت رہنما میرواعظ عمر فاروق کو مسجد کے اندر خطبہ پڑھنے دیا گیا۔ اس سے قبل میر واعظ عمر فاروق تقریباً ہر جمعہ کو جامع مسجد میں وعظ و تبلیغ کیا کرتے تھے اور اکثر مسئلہ کشمیر پر بھی لوگوں کے سامنے حریت کانفرنس کا موقف رکھتے تھے۔

حریت کانفرنس کے اعتدال پسند دھڑے کے مطابق میر واعظ کو تقریباً تین برسوں سے سری نگر کے نگین علاقے میں واقع ان کی رہائش گاہ پر ہی نظر بند رکھا گیا ہے۔ موجودہ میرواعظ سے قبل ان کے مرحوم والد میر واعظ مولوی فاروق اور ان کے قریبی رشتہ دار جیسے میرواعظ یوسف شاہ جامع مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیا کرتے تھے۔

کشمیر کی سب سے بڑی مسجد اب لگ بھگ تین سال سے خاموش پڑی ہے۔ حالانکہ بیچ میں حکومت نے جمعہ کے بغیر چند اوقات میں یہاں نماز پڑھنے کی اجازت دی تھی تاہم پہلے اگست دو ہزار انیس کے لاک ڈاؤن' پھر کووڈ انیس وباء اور ‘لا اینڈ آرڈر' کے چلتے زیادہ تر اس مسجد کو بند ہی رکھا گیا۔

جامع مسجد کشمیر کے شہر خاص کے وسط میں نوہٹہ کے علاقے میں آج سے سات سو برس قبل تعمیر کی گئی۔ یہ مرکزی مسجد خطے کی تاریخ کی گواہ بن چکی ہے۔ تاریخ دان لکھتے ہیں کہ سلطان سکندر کے دور میں ہی اس مسجد کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ ہر جمعہ کو یہاں رونق ہوا کرتی تھی۔ مرد اور خواتین یہاں میرواعظ کی زبانی جمعہ کا خطبہ سننے آتے تھے اور نماز کے بعد یہاں کے بازاروں میں شاپنگ بھی کیا کرتے تھے۔

سن چودہ سو میں سلطان سکندر کے دور میں تعمیر کی گئی سری نگرڈاؤن ٹاؤن کی جامعہ مسجد کشمیر کا اہم ثقافتی ورثہ ہونے کے ساتھ ساتھ مزاحمت کی بھی ایک علامت تصور کی جاتی ہے۔ اب یہاں کا ممبر خاموش پڑا ہے۔

جامعہ مسجد کے احاطے کے باہر ایک مارکیٹ بھی سجی ہے لیکن یہاں کے دکان دار پریشان حال ہیں۔ باسٹھ برس کے عبد الرحمٰن چار دہائیوں سے یہاں کی مارکیٹ میں تجارت کرتے چلے آئے ہیں۔ ان کے بقول اب جامع مسجد کا بازار پہلے جیسا نہیں رہا۔ ‘‘اب یہ بازار زیادہ تر ویران ہی پڑا ہوتا ہے۔''

جامعہ مارکیٹ کے دکان دار انتظامیہ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ مسجد میں جمعہ کی نماز کی اجازت دی جائے تاکہ اس بازار کے دکان داروں کے روزگار پر منفی اثرات مرتب نہ ہوں۔

گزشتہ تین برسوں سے مسلسل لاک ڈاؤنز کے باعث یہاں ہر بڑے اجتماعات پر اعلانیہ یا غیر اعلانیہ طور پر پابندی جاری رہی ہے جس کے خلاف عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ایک معمر خاتون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جامعہ مسجد میں عبادت پر حکومتی پابندی سے ‘‘عقیدت مندوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی ہے۔'' یہ خاتون جمعہ کی نماز جامع مسجد میں ہی ادا کیا کرتی تھیں۔

کشمیری عوام جامع مسجد میں نماز پر پابندی کو مذہبی آزادی پر وار تصور کرتی ہے۔ ‘‘جامعہ مسجد کشمیر اور کشمیریوں کی اجتماعی پہچان ہے۔ اسے نماز اور اجتماعات کے لئے کھول دینا چاہیے۔''

‘‘ہم یہاں پانچ وقت کی نماز ادا کیا کرتے تھے۔ یہاں ہمارے دین اور آخرت کی بات ہوتی تھی۔ اسی سے ہماری دنیا اور آخرت سنور جاتی تھی۔ جب سے مسجد بند پڑی ہے ہمارے عقیدے اور جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ ہم روحانی طور بھی بیمار ہوگئے ہیں۔''

کشمیر کی بیشتر مساجد' خانقاہوں' زیارتوں اور مدارس میں پچھلے تین برسوں سے کشمیر مسئلے پر کوئی بات نہیں ہوئی ہے جبکہ بیشتر مساجد میں یہ پیغام آویزان ہے: ‘‘مسجد کے اندر سیاسی گفتگو کرنا منع ہے۔''

جب ڈی ڈبلیو اردو نے چند ایک مولویوں سے ان کی لمبی خاموشی کی وجہ دریافت کرنے کی کوشش کی تو وہ گھبراگئے۔ انہوں نے بتایا کہ اگست دو ہزار انیس سے قبل سینکڑوں اماموں اور مولویوں کو پولیس تھانوں میں سمن کیا گیا اور ان سے زبردستی ایک حلف نامے پر دستخط کرائے گئے۔ ان کے بقول ان کو باضابطہ یہ ھدایت بھی دی گئی کہ ‘‘کشمیر اور فلسطین کے سیاسی معاملات پر مسجد کے اندر کوئی بات نہ کی جائی بصورت دیگر انہیں عوام کے جذبات بھڑکانے اور امن و امان میں رخنہ ڈالنے کی پاداش میں جیل میں بند کردیا جائے گا۔''

بھارتی وزارت داخلہ نے پارلیمان ہند کو بتایا تھا کہ کشمیر میں دفعہ تین سو ستر ہٹانے سے قبل چھ ہزار سے زائد افراد کو احتیاطی حراست میں لینا پڑا تھا جن میں ریاست کے تین سابق وزراء اعلیٰ اور مختلف نظریات سے وابستہ اہم ترین سیاست دان' انسانی حقوق کے کارکن' سول سوسائیٹی ارکان' تاجر' صحافی اور عام لوگ شامل تھے۔

کشمیر کے سیاست دانوں' صحافیوں' وکلاء انجمنوں' سول سوسائٹی اور مبصروں کی طرح ہی یہاں کے خطیبوں' واعظوں اور مولویوں کو بھی خاموش کردیا گیا ہے۔ کشمیر کی مسجدوں کے ممبر' جو ایک زمانے میں گرجتے تھے' اب تین برسوں سے بالکل خاموش پڑے ہیں۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ ریاست کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے قبل انتظامہ اور پولیس نے مبینہ طورپر کشمیرکی کہانی مسخ کرنے کے لئے ‘چھ ایم' حکمت عملی اختیار کی۔ اس اسٹریٹیجی سے مبینہ طور پر کشمیر کی ‘مسجد' ممبر' مدرسے' مولوی' ملی ٹینٹ اور میڈیا' کو خاموش کرنا مقصود تھا۔

محض تین ہفتے قبل جموں و کشمیر پولیس نے جامع مسجد کے اندر جمعہ کی نماز کے بعد وہاں مبینہ طور پر آزادی کے حق میں نعرے لگانے والے تیرہ نوجوانوں پر مقدمہ درج کرکے انہیں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا تھا۔

نئی دہلی سے شائع ہونے والے ڈیجیٹل پورٹل دی پرنٹ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق کشمیر کے قید خانے کشمیری قیدیوں سے بھرے پڑے ہیں۔ اس رپورٹ نے سیکیورٹی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران گرفتاریوں کے چلتے مقامی جیل خانوں پر دباؤ پڑا ہے جس کے باعث متعدد وارنٹوں پر عمل در آمد نہیں ہو پا رہا ہے۔ اس سلسلے میں جموں و کشمیر پولیس نے بھارتی ریاستوں اتر پردیش اور مدھیہ پردیش کے جیل حکام سے رابطہ کیا ہے تاکہ کشمیری قیدیوں کو باہر کی جیلوں میں منتقل کیا جا سکے۔

‘‘صرف مارچ اور اپریل کے مہینوں میں ڈیرھ سو سے زائد کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس وقت پانچ سو سے زائد کشمیریوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کسی بھی شخص کو عدالتی کارروائی کے بغیر دو سال تک قید کیا جاسکتا ہے جبکہ ہر چھ ماہ بعد کیس پر نظر ثانی ممکن ہے۔''

دی کشمیر فائلز: یہ فلم بھارت میں اسلاموفوبیا کو ہوا دے گی؟

05:04

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں