مسجد، مولوی، مدرسے اور میڈیا سب کیسے خاموش کیے گئے؟
29 اپریل 2022
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی مرکزی جامع مسجد میں ایک مرتبہ پھر جمعتہ الوداع اور شب قدر کے موقعوں پر اجتماعات، نماز اور عبادت پر حکام نے پابندی عائد کردی، جس سے عقیدت مندوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی ہے۔
اشتہار
کشمیر کی اہم سیاسی اور مذہبی جماعتوں اور عقیدت مندوں نے انتظامیہ کے اس اقدام کو ‘‘مذہبی معاملات میں مداخلت'' بتایا جبکہ خطے کی سب سے پرانی جماعت نیشنل کانفرنس نے بھارتی حکومت کے ‘نارملسی' کے دعوے پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔
دارالحکومت سری نگر میں قائم انجمن اوقاف جامع مسجد نے اپنے ایک تازہ بیان میں اس بات کی تصدیق کی کہ حکام نے مرکزی مسجد میں جمعتہ الوداع اور شب قدر کے اجتماعات کی اجازت نہیں دی ہے۔
انجمن اوقاف کے مطابق ‘‘سری نگر ضلع میجسٹریٹ کی سربراہی میں انتظامیہ اور پولیس کی ایک ٹیم نے ستائیس اپریل کو افطاری کے بعد جامعہ مسجد کا رخ کیا اور انجمن اوقاف کے ممبران پر یہ واضح کردیا کہ جامعہ مسجد کے اندر شب قدر اور رمضان کے آخری جمعہ کے اجتماعات اور نماز کی اجازت نہیں دی جائے گی۔''
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
10 تصاویر1 | 10
گزشتہ تین برسوں سے کشمیر کی مساجد' مدارس' مولوی اور ممبر خاموش پڑے ہیں۔ کیا کشمیر کی مسجدوں' ممبروں' مدرسوں اور مولویوں کو حکومتی پالیسی کے تحت خاموش کر دیا گیا ہے؟ ڈوئچے ویلے نے اس سکوت کی وجوہات جاننے کے لئے مختلف طبقہء فکر سے تعلق رکھنے والے افراد سے رائے جاننے کی کوشش کی۔
سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ اور ان کے فرزند عمر عبداللہ کی سربراہی والی جماعت جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس نے انتظایہ کی جانب سے جامع مسجد میں نماز اور عبادت کی اجازت نہ دینے کی شدید الفاظ میں مزمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے انتظامیہ کے ‘نارملسی' دعوؤں پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔
جمعرات کو سری نگر میں واقع نیشنل کانفرنس کے صدر دفتر نوائے صبح میں پارٹی کے نائب صدر عمر عبداللہ نے یہ سوال پوچھا: ‘‘اگر کشمیر میں سب کچھ نارمل ہے تو پھر عقیدت مندوں کو جامع مسجد کے اندر داخل ہونے کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی؟'' انہوں نے انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ مقدس ایام کے موقع پر عقیدت مندوں کے جذبات کی قدر کرے' جامعہ مسجد کے دروازے عقیدت مندوں کے لئے کھول دئے جائیں۔
اگست دو ہزار انیس میں جموں و کشمیر کی داخلی خودمختاری' ریاستی اور خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد حکام نے اس مسجد میں ایک سو بیس سے بھی زائد ہفتوں تک جمعہ کی اجتماعی نماز کی اجازت نہیں دی اور نہ ہی حریت رہنما میرواعظ عمر فاروق کو مسجد کے اندر خطبہ پڑھنے دیا گیا۔ اس سے قبل میر واعظ عمر فاروق تقریباً ہر جمعہ کو جامع مسجد میں وعظ و تبلیغ کیا کرتے تھے اور اکثر مسئلہ کشمیر پر بھی لوگوں کے سامنے حریت کانفرنس کا موقف رکھتے تھے۔
حریت کانفرنس کے اعتدال پسند دھڑے کے مطابق میر واعظ کو تقریباً تین برسوں سے سری نگر کے نگین علاقے میں واقع ان کی رہائش گاہ پر ہی نظر بند رکھا گیا ہے۔ موجودہ میرواعظ سے قبل ان کے مرحوم والد میر واعظ مولوی فاروق اور ان کے قریبی رشتہ دار جیسے میرواعظ یوسف شاہ جامع مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیا کرتے تھے۔
کشمیر کی سب سے بڑی مسجد اب لگ بھگ تین سال سے خاموش پڑی ہے۔ حالانکہ بیچ میں حکومت نے جمعہ کے بغیر چند اوقات میں یہاں نماز پڑھنے کی اجازت دی تھی تاہم پہلے اگست دو ہزار انیس کے لاک ڈاؤن' پھر کووڈ انیس وباء اور ‘لا اینڈ آرڈر' کے چلتے زیادہ تر اس مسجد کو بند ہی رکھا گیا۔
جامع مسجد کشمیر کے شہر خاص کے وسط میں نوہٹہ کے علاقے میں آج سے سات سو برس قبل تعمیر کی گئی۔ یہ مرکزی مسجد خطے کی تاریخ کی گواہ بن چکی ہے۔ تاریخ دان لکھتے ہیں کہ سلطان سکندر کے دور میں ہی اس مسجد کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ ہر جمعہ کو یہاں رونق ہوا کرتی تھی۔ مرد اور خواتین یہاں میرواعظ کی زبانی جمعہ کا خطبہ سننے آتے تھے اور نماز کے بعد یہاں کے بازاروں میں شاپنگ بھی کیا کرتے تھے۔
سن چودہ سو میں سلطان سکندر کے دور میں تعمیر کی گئی سری نگرڈاؤن ٹاؤن کی جامعہ مسجد کشمیر کا اہم ثقافتی ورثہ ہونے کے ساتھ ساتھ مزاحمت کی بھی ایک علامت تصور کی جاتی ہے۔ اب یہاں کا ممبر خاموش پڑا ہے۔
جامعہ مسجد کے احاطے کے باہر ایک مارکیٹ بھی سجی ہے لیکن یہاں کے دکان دار پریشان حال ہیں۔ باسٹھ برس کے عبد الرحمٰن چار دہائیوں سے یہاں کی مارکیٹ میں تجارت کرتے چلے آئے ہیں۔ ان کے بقول اب جامع مسجد کا بازار پہلے جیسا نہیں رہا۔ ‘‘اب یہ بازار زیادہ تر ویران ہی پڑا ہوتا ہے۔''
’جموں و کشمير کے انضمام کا ادھورا خواب پورا ہو گيا‘
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمے کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔ اس دوران کئی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ بھارتی سکیورٹی اہلکار اور کشمیری عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپوں میں کئی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Dar Yasin
وادی میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا تھا
ایک سال قبل بھارتی حکومت نے بھارتی زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے وادی میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا تھا۔ کشمیریوں کے پاس یہ خصوصی حیثیت صدراتی حکم کے تحت گزشتہ ستر سالوں سے تھی۔ بھارتی حکومت نے اس فیصلے کے فوری بعد کشمیری رہنماؤں کو ان کے گھروں میں نظر بند کر دیا ور بڑی تعداد میں گرفتاریاں بھی کی گئیں۔
تصویر: AFP/R. Bakshi
احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع
لاک ڈاؤن کے فوری بعد بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین پر شدید کریک ڈاؤن کیا گیا۔ احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھارت کے دیگر علاقوں میں بھی پھیل گیا۔ مودی مخالف جذبات رکھنے والے سرگرم کارکنوں اور شہریوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو واپس بحال کیا جائے۔
تصویر: Imago Images/S. Majeed
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس
اگست 2019ء میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے بھارت کے زیر انتطام کشمیر پر ایک خصوصی اجلاس منعقد کیا جس میں یہ اعلان کیا گیا کہ بھارت کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld
بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سےشہریوں پر مبینہ تشدد
لاک ڈاؤن کے پہلے ماہ ہی برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی جانب سے انکشاف کیا گیا کہ بھارتی افواج کی جانب سے سویلین شہریوں پر تشدد کیا گیا۔ اس رپورٹ میں بی بی سی نے ان مقامی افراد سے گفتگو کی جنہوں نے دعویٰ کیا کہ ان پر بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے شدید تشدد کیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا
ستمبر دو ہزار انیس میں پاکستان، برطانیہ، بھارت اور خود بھارتی زیر انتطام کشمیر میں بھی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ لاک ڈاؤن کے باعث کشمیر کی معیشت بد حالی کا شکار ہونا شروع ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
نیشنل کانفرس کے اراکین کو ان کی قیادت سے ملاقات کی اجازت
گزشتہ برس اکتوبر میں بھارتی حکومت نے نیشنل کانفرس کے اراکین کو ان کی قیادت سے ملاقات کی اجازت دی۔ اسی ماہ پولیس نے جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کی بہن اور بیٹی سمیت کئی خواتین کو احتجاجی مظاہرہ کرنے پر گرفتار کر لیا۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
جموں و کشمير اب دو مختلف خطے بن گئے
اکتیس اکتوبر کو سرکاری طور پر بھارتی وفاقی حکومت کے احکامات لاگو ہوئے اور جموں و کشمير اب دو مختلف خطے بن گئے، ایک جموں و کشمیر اور دوسرا لداخ، جن کے انتظامات اب براہ راست وفاقی حکومت کے ہاتھ میں چلے گئے۔ اس حوالے سے بھارتی وزير داخلہ امت شاہ نے اس پيش رفت پر کہا، ’’جموں و کشمير کے انضمام کا ادھورا خواب آج پورا ہو گيا ہے۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustfa
مقامی معیشت کو تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کے برابر نقصان
نومبر میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق مودی حکومت کی طرف سے اگست 2019ء میں جموں کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے کے اعلان کے بعد صرف کشمیر میں سکیورٹی شٹ ڈاؤن کے نتیجے میں مقامی معیشت کو تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کے برابر نقصان ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/M. Mattoo
انٹرنیٹ اور فون سروسز کو بحال کر دیا گیا
نومبر میں ہی بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع لداخ کے خطہ کرگل میں ایک سو پینتالیس روز کے بعد انٹرنیٹ اور فون سروسز کو بحال کر دیا گیا۔ تاہم وادی کمشیر میں اس پر پابندیاں عائد رہیں۔ دسمبر میں اعلان کیا گیا کہ کشمیر میں موبائل فون کی ٹیکسٹ میسیجنگ سروس بحال کی جائے گی تاہم یہ بحالی بہت محدود تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/X. Galiana
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس
جنوری دو ہزار بیس میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے ایک مرتبہ پھر کشمیر کی صورتحال پر اجلاس بلایا۔ اس موقع پر چین کی جانب سے کہا گیا کہ کشمیر کی قمست کا فیصلہ وہاں کی عوام کو کرنا چاہیے اور چین کشمیریوں کے حق رائے دہی کی حمایت کرتا ہے۔
تصویر: Imago Images/ZUMA Press/F. Khan
پاکستانی وزیر اعظم کا خطاب
رواں سال فروری میں بھارتی زیر انتظام کشمیر میں لاک ڈاؤن کو چھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا۔ پاکستانی وزیر اعظم نے پانچ فروری کو مظفرآباد میں پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا ہی ایک دن کشمیر کی آزادی کا سبب بنے گا۔‘‘
تصویر: AFP/Getty Images
عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت دیگر رہنماؤں کی نظر بندی کا سلسلہ جاری
بھارت کی جانب سے عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت دیگر رہنماؤں کی نظر بندی کا سلسلہ جاری ہے۔ فروری میں ہی امریکی صدر کی جانب سے کشمیر کی صورتحال کا حل نکالنے کے لیے ثالثی کے کردار کی پیش کش کی گئی۔
تصویر: Getty Images/S. Hussain
انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں میں کچھ کمی
اس سال مارچ میں انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں میں کچھ کمی کی جاتی ہے۔ لیکن انٹرنیٹ کی انتہائی سست رفتار کے ساتھ۔
تصویر: Reuters/A.
نئے قوانین کا نفاظ
اپریل میں بھارتی حکومت کی جانب سے نئے قوانین کا نفاظ کیا جاتا ہے۔ نئے قانون کے تحت کوئی بھی شخص جو جموں اور کشمیر میں پندرہ سال تک رہائش پذیر ہوگا وہ کشمیری ڈومیسائل کا اہل بن جائے گا۔
تصویر: AFP/T. Mustafa
بھارتی فوجیوں اور چار کشمیری جنگجوؤں کی ہلاکت
مئی میں بھارتی سکیورٹی فورسز اور کشمیری جنگجوؤں کے درمیان جھڑپ کے نتیجے میں پانچ بھارتی فوجیوں اور چار کشمیری جنگجوؤں کی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua News Agency/J. Dar
’بھارت جمہوریت کے امتحان میں ہار گیا’
اسی سال جولائی میں 'فورم فار ہیومن رائٹس ان جے اینڈ کے‘ نامی انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا تھا کہ کشمیر کئی لحاظ سے بھارتی جمہوریت کے لیے ایک امتحان رہا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت اس امتحان میں بری طرح ناکام ثابت ہوا ہے۔
تصویر: AFP/T. Mustafa
بچے کی موجودگی میں اس کے نانا کی ہلاکت
جولائی میں ہی ایک چھوٹے بچے کی موجودگی میں اس کے نانا کی ہلاکت پر کشمیر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ اس بچے کے نانا سکیورٹی افواج اور عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپ کا مبینہ طور پر نشانہ بن گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
چار اور پانچ اگست کے دوران سخت کرفیو نافذ
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں چار اور پانچ اگست کے دوران سخت کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ گزشتہ برس پانچ اگست کو ہی کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
’یوم استحصال‘
پاکستان کی جانب سے پانچ اگست کو ’یوم استحصال‘ کہا جا رہا ہے۔ آج پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا،’’ کشمیر کا معاملہ ہر فورم پر اٹھاتے رہیں گے۔‘‘ وزیر اعظم پاکستان نے ملک کا ایک نیا ’سیاسی نقشہ‘ منظر عام پر لایا ہے جس میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
19 تصاویر1 | 19
جامعہ مارکیٹ کے دکان دار انتظامیہ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ مسجد میں جمعہ کی نماز کی اجازت دی جائے تاکہ اس بازار کے دکان داروں کے روزگار پر منفی اثرات مرتب نہ ہوں۔
گزشتہ تین برسوں سے مسلسل لاک ڈاؤنز کے باعث یہاں ہر بڑے اجتماعات پر اعلانیہ یا غیر اعلانیہ طور پر پابندی جاری رہی ہے جس کے خلاف عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ایک معمر خاتون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جامعہ مسجد میں عبادت پر حکومتی پابندی سے ‘‘عقیدت مندوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی ہے۔'' یہ خاتون جمعہ کی نماز جامع مسجد میں ہی ادا کیا کرتی تھیں۔
کشمیری عوام جامع مسجد میں نماز پر پابندی کو مذہبی آزادی پر وار تصور کرتی ہے۔ ‘‘جامعہ مسجد کشمیر اور کشمیریوں کی اجتماعی پہچان ہے۔ اسے نماز اور اجتماعات کے لئے کھول دینا چاہیے۔''
‘‘ہم یہاں پانچ وقت کی نماز ادا کیا کرتے تھے۔ یہاں ہمارے دین اور آخرت کی بات ہوتی تھی۔ اسی سے ہماری دنیا اور آخرت سنور جاتی تھی۔ جب سے مسجد بند پڑی ہے ہمارے عقیدے اور جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ ہم روحانی طور بھی بیمار ہوگئے ہیں۔''
کشمیر کی بیشتر مساجد' خانقاہوں' زیارتوں اور مدارس میں پچھلے تین برسوں سے کشمیر مسئلے پر کوئی بات نہیں ہوئی ہے جبکہ بیشتر مساجد میں یہ پیغام آویزان ہے: ‘‘مسجد کے اندر سیاسی گفتگو کرنا منع ہے۔''
کشمیر میں کرفیو، موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آج علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی پہلی برسی منائی جا رہی ہے۔ اس موقع پر کشمیر کے زیادہ تر حصوں میں کرفیو نافذ ہے اور موبائل سمیت انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی ہے۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں مشتعل مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
اس موقع پر بھارتی فورسز کی طرف سے زیادہ تر علیحدگی پسند لیڈروں کو پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا یا پھر انہیں گھروں پر نظر بند کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
بھارتی فورسز کی جانب سے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کے ساتھ ساتھ گولیوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
مظاہرین بھارت مخالف نعرے لگاتے ہوئے حکومتی فورسز پر پتھر پھینکتے رہے۔ درجنوں مظاہرین زخمی ہوئے جبکہ ایک کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
ایک برس پہلے بھارتی فورسز کی کارروائی میں ہلاک ہو جانے والے تئیس سالہ عسکریت پسند برہان وانی کے والد کے مطابق ان کے گھر کے باہر سینکڑوں فوجی اہلکار موجود ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
برہان وانی کے والد کے مطابق وہ آج اپنے بیٹے کی قبر پر جانا چاہتے تھے لیکن انہیں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
باغی لیڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دوران سکیورٹی اہلکاروں کی جوابی کارروائیوں میں اب تک ایک سو کے قریب انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
کشمیر کے علیحدگی پسند لیڈروں نے وانی کی برسی کے موقع پر ایک ہفتہ تک احتجاج اور مظاہرے جاری رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
ایک برس قبل آٹھ جولائی کو نوجوان علیحدگی پسند نوجوان لیڈر برہان وانی بھارتی فوجیوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
9 تصاویر1 | 9
جب ڈی ڈبلیو اردو نے چند ایک مولویوں سے ان کی لمبی خاموشی کی وجہ دریافت کرنے کی کوشش کی تو وہ گھبراگئے۔ انہوں نے بتایا کہ اگست دو ہزار انیس سے قبل سینکڑوں اماموں اور مولویوں کو پولیس تھانوں میں سمن کیا گیا اور ان سے زبردستی ایک حلف نامے پر دستخط کرائے گئے۔ ان کے بقول ان کو باضابطہ یہ ھدایت بھی دی گئی کہ ‘‘کشمیر اور فلسطین کے سیاسی معاملات پر مسجد کے اندر کوئی بات نہ کی جائی بصورت دیگر انہیں عوام کے جذبات بھڑکانے اور امن و امان میں رخنہ ڈالنے کی پاداش میں جیل میں بند کردیا جائے گا۔''
بھارتی وزارت داخلہ نے پارلیمان ہند کو بتایا تھا کہ کشمیر میں دفعہ تین سو ستر ہٹانے سے قبل چھ ہزار سے زائد افراد کو احتیاطی حراست میں لینا پڑا تھا جن میں ریاست کے تین سابق وزراء اعلیٰ اور مختلف نظریات سے وابستہ اہم ترین سیاست دان' انسانی حقوق کے کارکن' سول سوسائیٹی ارکان' تاجر' صحافی اور عام لوگ شامل تھے۔
کشمیر کے سیاست دانوں' صحافیوں' وکلاء انجمنوں' سول سوسائٹی اور مبصروں کی طرح ہی یہاں کے خطیبوں' واعظوں اور مولویوں کو بھی خاموش کردیا گیا ہے۔ کشمیر کی مسجدوں کے ممبر' جو ایک زمانے میں گرجتے تھے' اب تین برسوں سے بالکل خاموش پڑے ہیں۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ ریاست کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے قبل انتظامہ اور پولیس نے مبینہ طورپر کشمیرکی کہانی مسخ کرنے کے لئے ‘چھ ایم' حکمت عملی اختیار کی۔ اس اسٹریٹیجی سے مبینہ طور پر کشمیر کی ‘مسجد' ممبر' مدرسے' مولوی' ملی ٹینٹ اور میڈیا' کو خاموش کرنا مقصود تھا۔
محض تین ہفتے قبل جموں و کشمیر پولیس نے جامع مسجد کے اندر جمعہ کی نماز کے بعد وہاں مبینہ طور پر آزادی کے حق میں نعرے لگانے والے تیرہ نوجوانوں پر مقدمہ درج کرکے انہیں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا تھا۔
نئی دہلی سے شائع ہونے والے ڈیجیٹل پورٹل دی پرنٹ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق کشمیر کے قید خانے کشمیری قیدیوں سے بھرے پڑے ہیں۔ اس رپورٹ نے سیکیورٹی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران گرفتاریوں کے چلتے مقامی جیل خانوں پر دباؤ پڑا ہے جس کے باعث متعدد وارنٹوں پر عمل در آمد نہیں ہو پا رہا ہے۔ اس سلسلے میں جموں و کشمیر پولیس نے بھارتی ریاستوں اتر پردیش اور مدھیہ پردیش کے جیل حکام سے رابطہ کیا ہے تاکہ کشمیری قیدیوں کو باہر کی جیلوں میں منتقل کیا جا سکے۔
‘‘صرف مارچ اور اپریل کے مہینوں میں ڈیرھ سو سے زائد کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس وقت پانچ سو سے زائد کشمیریوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کسی بھی شخص کو عدالتی کارروائی کے بغیر دو سال تک قید کیا جاسکتا ہے جبکہ ہر چھ ماہ بعد کیس پر نظر ثانی ممکن ہے۔''
دی کشمیر فائلز: یہ فلم بھارت میں اسلاموفوبیا کو ہوا دے گی؟