’پاکستان کے ساتھ صرف اس کے زیر انتظام کشمیر پر بات ہو گی‘
شمشیر حیدر اے ایف پی کے ساتھ
18 اگست 2019
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مظاہروں کے بعد حکام نے دوبارہ کرفیو میں سختی کر دی ہے۔ حکام کے مطابق اب تک چار ہزار سے زائد افراد حراست میں لیے جا چکے ہیں۔
اشتہار
بھارتی حکام کی جانب سے جموں و کشمیر کے مرکزی شہر سری نگر سمیت دیگر علاقوں میں ہونے والے مظاہروں کے بعد اس متنازعہ علاقے میں کرفیو میں دوبارہ سے سختی کر دی گئی ہے۔ پانچ اگست کے روز بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت ختم کیے جانے کے قریب دو ہفتوں بعد اب کئی علاقوں میں لاک ڈاؤن میں نرمی کی جا رہی تھی۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اتوار کے روز سری نگر کے درجنوں علاقوں میں مظاہرین اور پولیس کے مابین جھڑپوں میں کم از کم آٹھ افراد زخمی بھی ہوئے۔
اے ایف پی ہی سے گفتگو کرتے ہوئے بھارتی حکومت کے ایک اہلکار نے بتایا کیا کہ پیر کے روز مزید ٹیلی فون ایکسچینجز بحال کر دی جائیں گی۔ اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ بھی کہا کہ پیر کے روز جموں و کشمیر کے کچھ علاقوں میں اسکول بھی کھول دیے جائیں گے۔
ہزاروں کشمیری زیر حراست
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے کئی بھارتی حکومتی ذرائع سے تصدیق کر کے لکھا ہے کہ جموں و کشمیر میں امن و امان کی صورت حال خراب ہونے کے خوف کے باعث نئی دہلی حکام نے ہزاروں کشمیری شہریوں کو حراست میں لے رکھا ہے۔ شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر ایک میجسٹریٹ نے یہ بھی بتایا کہ کشمیری شہریوں کو 'پبلک سیفٹی ایکٹ‘ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ اس متنازعہ قانون کے تحت بھارتی سکیورٹی اہلکار کسی الزام کے بغیر دو سال تک کی مدت تک کسی بھی شہری کو حراست میں رکھ سکتے ہیں۔
جموں و کشمیر کے حکومتی ترجمان روہت کنسال کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس گرفتار کردہ افراد کی تعداد کے بارے میں کوئی مرکزی اعداد و شمار نہیں ہیں۔ تاہم فرانسیسی نیوز ایجنسی کے مطابق سینکڑوں اہم سیاسی شخصیات سمیت چھ ہزار سے زائد کشمیری زیر حراست ہیں۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی جیلوں میں گنجائش ختم ہو جانے کے باعث زیادہ تر افراد کو ملک کی دیگر جیلوں میں منتقل کیا گیا ہے۔
'پاکستان کے ساتھ صرف اس کے زیر انتظام کشمیر پر بات ہو گی‘
بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ صرف اس کے زیر انتظام کشمیر کے بارے میں بات ہو گی۔ یہ بات انہوں نے آج بھارتی ریاست ہریانہ کے صوبائی انتخابات کی تیاریوں کے لیے منعقدہ اپنی ہندو قوم پرست سیاسی جماعت بی جے پی کے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
راجناتھ سنگھ کا کہنا تھا، ''پاکستان کے لوگ کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ بات کریں۔ پاکستان اور بھارت کے مابین بات تبھی ہو گی جب تک پاکستان دہشت گردی ختم نہیں کرتا۔ اس کے بعد بھی جو بات چیت ہو گی وہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر ہو گی۔‘‘
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔