کشمیر میں کنٹرول لائن پر دو طرفہ شیلنگ میں بتدریج اضافہ
12 اپریل 2018بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر میں کنٹرول لائن پر ہونے والی جھڑپوں کی شدت گزشتہ پندرہ برسوں میں اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ سن 2003 میں سنگین سرحدی کشیدگی کے بعد طے پانے والی فائربندی کے بعد جنوبی ایشیا کی جوہری ہتھیاروں کی حامل ان دونوں ریاستوں نے کنٹرول لائن پر خاموشی اختیار کر لی تھی لیکن حالیہ کئی مہینوں سے فائرنگ اور توپوں کی گھن گرج نے اس سکون کو ریزہ ریزہ کر دیا ہے۔
لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کا بھارتی الزام
کشمیر میں تازہ تشدد: کیا مودی کی پالیسی ناکام ہو گئی؟
کشمیر میں عام ہڑتال کا اعلان، بیس افراد ہلاک
کنٹرول لائن پر تازہ جھڑپ، سینکڑوں افراد نقل مکانی کر گئے
لائن آف کنٹرول پر بھاری ہتھیاروں سے گولے داغنے، خودکار ہتھیاروں سے فائرنگ اور جھڑپوں کی وجہ وہاں دونوں ملکوں کے بھاری ہتھیاروں کی موجودگی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان جھڑپوں سے ہونے والے انسانی نقصان (ہلاک و زخمی) کا کوئی تصدیق شدہ ریکارڈ بھی دستیاب نہیں ہے۔ گزشتہ دو برسوں کے درمیان کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس باعث دو طرفہ فائرنگ و شیلنگ بعض اوقات انتہائی شدید بھی رہی ہیں۔
بھارت کے مطابق سن 2015 میں پاکستان کی جانب سے کی جانے والی سرحدی خلاف ورزیوں کی تعداد 152 تھی اور گزشتہ برس (2017ء) میں ایسی خلاف ورزیوں کی تعداد 860 تک پہنچ گئی تھی۔ نئی دہلی حکام کے مطابق رواں برس جنوری اور فروری کے مہینوں میں بھی فائرنگ کے واقعات کی تعداد 351 رہی۔
دوسری جانب پاکستانی حکام نے بھارتی کی طرف سے فائر بندی کی خلاف ورزیوں کی تعداد بہت زیادہ بتائی ہے۔ اسلام آباد کے مطابق سن 2017 میں بھارت نے لائن آف کنٹرول پر 1970 مرتبہ فائرنگ کرتے ہوئے طے شدہ فائربندی کی خلاف ورزی کی جبکہ سن 2015 میں یہ تعداد محض 168 تھی۔ پاکستانی وزارت دفاع کے مطابق رواں برس مارچ تک کنٹرول لائن پر بھارت کی جانب سے فائرنگ کے چھوٹے بڑے واقعات کی تعداد بھی 415 رہی۔
امریکی ادارہ برائے امن کے محقق ہیپی مون جیکب نے انہی خلاف ورزیوں پر ایک رپورٹ سن 2017 میں مرتبہ کی تھی۔ جیکب نے موجودہ صورت حال کے بارے میں کہا کہ انہیں ان دونوں ملکوں کی جانب سے پیش کردہ خلاف ورزیوں کے اعداد و شمار پر یقین کرنے میں کوئی پریشانی نہیں کیونکہ اس کا سلسلہ جاری ہے۔
جیکب بھارتی دارالحکومت میں مقیم ہیں اور انہوں نے اپنی رپورٹ مرتب کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے فوجی حکام کے ساتھ ساتھ مقامی سویلین متاثرین کے انٹرویو بھی کیے تھے۔