کشمیر: کنٹرول لائن پر موت کی گھن گرج پر محتاط خاموشی کا غلبہ
2 اپریل 2021
پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر کے متنازعہ اور منقسم خطے میں فریقین کے مسلح فوجی آج بھی اپنے اپنے بنکروں میں موجود ہیں مگر کنٹرول لائن پر زور دار دھماکوں سے ان کی گولے اگلتی توپیں کافی عرصے بعد اب خاموش ہو گئی ہیں۔
اشتہار
کشمیر میں کنٹرول لائن کا فوجی علاقہ دونوں حریف ہمسایہ ممالک کے مابین عملاﹰ سرحد کا کام دیتا ہے مگر اس فوجی لکیر کے آر پار دونوں ایٹمی طاقتوں کے فوجیوں کے مابین ایک دوسرے پر گولہ باری اور فائرنگ کی تاریخ اتنی پرانی ہے کہ اب اس علاقے کی زمین بھی بارود کی بو اور انسانی خون کی رنگت سے مانوس ہو چکی ہے۔
لیکن یہ سب کچھ اس علاقے کی مقامی سول آبادی، کشمیری عوام اور مجموعی طور پر جنوبی ایشیا میں دیرپا قیام امن اور خوشحالی کی ضامن ترقی کے لیے بڑا خطرہ اور مستقبل کے لیے ایک برا شگون ہی رہا ہے۔
کنٹرول لائن پر اب تک پاکستان اور بھارت کے سینکڑوں فوجی مارے جا چکے ہیں۔ اس عسکری لکیر کے قریب رہنے والے انسان فوجی ہتھیاروں اور توپوں کی گھن گرج کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ دھماکوں اور فائرنگ کا نا ہونا انہیں غیر معمولی محسوس ہوتا ہے۔
موت کی گھن گرج جو خاموشی میں ڈوب گئی
پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر گزشتہ کچھ عرصے سے فریقین کی توپیں اور مشین گنیں چپ ہیں اور موت کی گھن گرج ایک محتاط خاموشی میں ڈوب چکی ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔
ایک تو 2003ء میں طے پانے والا وہ سیز فائر معاہدہ، جس کے دوبارہ اور دو طرفہ احترام کا دونوں ممالک نے گزشتہ ماہ ایک بار پھر اعادہ کیا اور دوسری وہ امن کوششیں جو اسلام آباد اور نئی دہلی کے تعطل کے شکار باہمی تعلقات میں نئی تحریک پیدا کرنے کے لیے کی جا رہی ہے۔
سیز فائر کے احترام کا نیا مشترکہ عزم ایک بہت اچھی پیش رفت ہے، جس کے بعد مقامی آبادیوں اور سیاسی تجزیہ کاروں کی طرف سے یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ نئی پیدا ہونے والی امن کی یہ چھوٹی سی امید کتنی دیر تک قائم رہے گی اور اگر اسے پھلنے پھولنے کا موقع ملا تو وہ کب تک ایک ننھے سے پودے سے تناور درخت بن سکے گی؟
سیز فائر کی دو طرفہ خواہش کے محرکات
امریکا کی شکاگو یونیورسٹی کے سیاسیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور جنوبی ایشیا اور پاک بھارت تنازعے پر قریب سے نظر رکھنے والے ماہر پال سٹینی لینڈ کہتے ہیں کہ اسلام آباد اور نئی دہلی دونوں کی باہمی سیز فائر کی اس تازہ ترین خواہش کے محرکات بڑے متنوع ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کنٹرول لائن پر جھڑپوں کی دونوں ممالک بہت بڑی انسانی اور مالیاتی قیمت چکا رہے ہیں، دونوں ہی کی معیشتیں دنیا کے دیگر ممالک کی طرح کورونا وائرس کی عالمگیر وبا سے متاثر ہوئی ہیں اور یہ دونوں ریاستیں اس امر سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ انہیں خارجہ پالیسی کے محاذ پر کتنے بڑے بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔
پال سٹینی لینڈ کے بقول یہ وہ متعدد متنوع عوامل ہیں، جن کی وجہ سے کشمیر میں کنٹرول لائن پر دونوں روایتی حریف ممالک کے ہتھیار کم از کم اس وقت مہلک گولہ بارود اگلنا بند کر چکے ہیں اور سیاسی سطح پر بھی تقریباﹰ دو سال بعد پاکستانی اور بھارتی دارالحکومتوں میں برف کچھ پگھلنا شروع ہوئی ہے۔
اشتہار
چینی بھارتی عسکری تناؤ
پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر میں سیز فائر معاہدے پر عمل درآمد کے نئے عزم سے کچھ ہی پہلے بھارت اور اس کے اس سے بھی بڑے ہمسایہ ملک چین کے مابین یہ اتفاق رائے بھی ہو گیا تھا کہ دونوں ملک ایک دوسرے سے اس سرحدی تنازعے میں عسکری دوری پر چلے جائیں گے، جو کئی ماہ تک شدید کشیدگی اور مسلح صف آرائی کا سبب بنے رہنے کے علاوہ کئی بھارتی اور چینی فوجیوں کی ہلاکت کی وجہ بھی بنا تھا۔
چین کے پاکستان کے ساتھ روایتی دوستانہ تعلقات کو دیکھتے ہوئے کئی عسکری ماہرین کے مطابق بھارت کے لیے ایک وقت پر یہ خطرہ بھی پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں اس کی بیک وقت مختلف محاذوں پر اپنے دو ایسے حریفوں کے ساتھ جنگ نا شروع ہو جائے، جو آپس میں عشروں سے ایک دوسرے کے قریبی حلیف ہیں۔
کشمیر میں کرفیو، موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آج علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی پہلی برسی منائی جا رہی ہے۔ اس موقع پر کشمیر کے زیادہ تر حصوں میں کرفیو نافذ ہے اور موبائل سمیت انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی ہے۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں مشتعل مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
اس موقع پر بھارتی فورسز کی طرف سے زیادہ تر علیحدگی پسند لیڈروں کو پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا یا پھر انہیں گھروں پر نظر بند کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
بھارتی فورسز کی جانب سے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کے ساتھ ساتھ گولیوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
مظاہرین بھارت مخالف نعرے لگاتے ہوئے حکومتی فورسز پر پتھر پھینکتے رہے۔ درجنوں مظاہرین زخمی ہوئے جبکہ ایک کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
ایک برس پہلے بھارتی فورسز کی کارروائی میں ہلاک ہو جانے والے تئیس سالہ عسکریت پسند برہان وانی کے والد کے مطابق ان کے گھر کے باہر سینکڑوں فوجی اہلکار موجود ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
برہان وانی کے والد کے مطابق وہ آج اپنے بیٹے کی قبر پر جانا چاہتے تھے لیکن انہیں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
باغی لیڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دوران سکیورٹی اہلکاروں کی جوابی کارروائیوں میں اب تک ایک سو کے قریب انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
کشمیر کے علیحدگی پسند لیڈروں نے وانی کی برسی کے موقع پر ایک ہفتہ تک احتجاج اور مظاہرے جاری رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
ایک برس قبل آٹھ جولائی کو نوجوان علیحدگی پسند نوجوان لیڈر برہان وانی بھارتی فوجیوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
9 تصاویر1 | 9
ممکنہ امریکی اور چینی دباؤ
اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے سابق وائس چانسلر اور معروف مؤرخ صدیق وحید کہتے ہیں، ''ممکنہ طور پر یہ واشنگٹن اور بیجنگ کی طرف سے ڈالا جانے والا دباؤ ہے، جو نئی دہلی اور اسلام آباد کو اس طرف لے جا رہا ہے کہ وہ خطے میں جامع اور دیرپا قیام امن کے لیے قدم اٹھائیں۔‘‘
ان کے مطابق چین چاہتا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ فوجی کشیدگی کیبجائے اس بات پر زیادہ توجہ دے کہ چائنا پاکستان اقتصادی راہ داری منصوبے کے تحت پاکستان میں کی جانے والی بیسیوں ارب ڈالر کی چینی سرمایا کاری کا تحفظ کیا جائے۔ یہ منصوبہ زمینی راستے سے چین کے عالمی تجاری رابطوں میں توسیع کے لیے ضروری ہے۔
دوسری طرف بھارت کو امریکا کی طرف سے پاکستان کے ساتھ امن پیش رفت کے لیے دباؤ کا سامنا اس لیے ہے کہ واشنگٹن چاہتا ہے کہ نئی دہلی اپنی توانائی مجتمع رکھے اور اسے خطے میں چینی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے استعمال کرے۔
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔
اس کا ایک ثبوت امریکا کی قیادت میں بھارت، آسٹریلیا اور جاپان پر مشتمل چار ممالک کا وہ نیا ابھرتا ہوا اتحاد بھی ہے، جو عرف عام میں 'کُوآڈ‘ کہلاتا ہے اور جس کے پیچھے ماہرین کے مطابق امریکا کا مقصد چینی اثر و رسوخ کو محدود کرنا ہے۔
کنٹرول لائن پر خوش آئند سکوت
پاکستان اور بھارت کو امن کی طرف قدم بڑھانے پر مجبور کرنے والے عوامل جو بھی ہوں، یہ بات خوش آئند ہے کہ کشمیر میں کنٹرول لائن پر دونوں ممالک کی افواج کی توپیں خاموش ہیں۔ کم از کم اس وقت۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ توپوں کے دہانے ٹھنڈے ہی رہنے دیے جائیں اور امن کی خواہش کو گرم جوشی سے آگے بڑھایا جائے۔
اس عمل کو پاکستانی او بھارتی وزرائے اعظم کی طرف سے ایک دوسرے کو لکھے گئے حالیہ خطوط سے بھی مدد ملی اور سیاست، معیشت، تجارت اور کھیلوں کے شعبوں میں ایسے مزید رابطوں کی بحالی اس عمل میں اور زیادہ معاون ثابت ہو گی۔
م م / ک م (اے پی)
کشمیر میں موسم خزاں کے رنگ و آہنگ
عام طور پرموسم خزاں کو حزن و ملال کا سیزن کہا جاتا ہے۔ لیکن قدرتی حسن و جمال سے مالا مال خطہ کشمیر کا موسم خزاں اتنا دلکش، دل فریب اور خوبصورت ہے کہ ہر ایک کو بے ساختہ اپنی طرف متوجہ کرلیتا ہے۔ صحافی رؤف فدا کی تصاویر
تصویر: Rouf Fida/DW
کشمیر میں موسم خزاں کے رنگ
کشمیر کے باغات ابھی سیب، انار، پیچ اور آڑو جیسے رنگ برنگے پھلوں سے خالی ہی ہوئے تھے کہ موسم خزاں نے سبز پتوں میں لال پیلے کا پر حسن امتزاج پیدا کر دیا۔ پت جھڑ کے رنگوں کی پر بہار رونقیں چہار جانب سے ایسے جلوے بکھیر رہی ہیں کہ وادی کشمیر کا منظر نکھر گیا ہے۔ حسن و جمال سے پر یہ نظارے سبھی کو اپنی جانب دعوت نظارہ دے رہے ہیں۔
تصویر: Rouf Fida/DW
کشمیر میں موسم خزاں کے رنگ
خزاں میں چنار کے درختوں سے گرنے والے پتے اپنی سرگوشی سے فضا میں عجیب و غریب ارتعاش پیدا کرتے ہیں۔ پہاڑوں کے دامن اور میدانی علاقوں کے چنار کے باغوں میں درختوں سے گرتے نارنگی اور لال پیلے پتوں نے زمین پر ایک انوکھی قالین بچھارکھی ہے۔ ایسے نت نئے حسین مناظر کہ جن پر عقل انسانی رشک کرے اور حیرت کی دنیا میں کھو کر رہ جائے۔
تصویر: Rouf Fida/DW
کشمیر میں موسم خزاں کے رنگ
جنت نظیر کشمیر قدرتی حسن و جمال کے نظاروں سے مالا ہے۔ اس کے لہلہاتے سرسبز پہاڑ، آبشاریں اور خوبصورت جنگلات اسے ممتاز بناتے ہیں۔ اس کے موسم بھی اپنی مثال آپ ہیں اور خزاں کا اپنا ایک منفرد رنگ ہے۔
تصویر: Rouf Fida/DW
کشمیر میں موسم خزاں کے رنگ
سیاح موسم خزاں میں چنار کے درختوں کے سائے میں تصویریں لیتے ہوئے۔ خزاں کے موسم میں بھی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد کشمیر صرف اس لیے آتی ہے تاکہ وہ اس کے رنگ، خوشبو اور مہک سے لطف اندوز ہوسکے۔
تصویر: Rouf Fida/DW
کشمیر میں موسم خزاں کے رنگ
ڈل جھیل کے کنارے بلند و بالا چنار کے درختوں سے آراستہ ہیں۔ اس سے پہلے کہ انتہائی سرد موسم میں جھیل سفید چادر میں ملبوس ہوجائے، ان درختوں کے پتوں نے اسے عروسی لباس عطا کر رکھا ہے۔ خزاں میں بھی اسے نت نئی رنگت نصیب ہوتی ہیں جس کی وجہ سے اس کی رونقیں تر و تازہ ہیں۔
تصویر: Rouf Fida/DW
کشمیر میں موسم خزاں کے رنگ
سرینگر کی ڈل جھیل سیاحت کے لیے معروف ہے جو موسم گرما میں شکاروں کی چہل پہل سے آباد رہتا ہے۔ خزاں آتے آتے یہ سیاحتی سرگرمیاں ماند پڑنے لگتی ہیں۔ لیکن اس کے ساکت پانی پر تھر تھراتے گیت اور دور دور تک پھیلی دھند ایک نئی دنیا کا پتہ دیتی ہے۔ یخ بستہ سردی میں جب اس کا پانی برف بن جاتا ہے تو یہ کھیل کے میدان میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
تصویر: Rouf Fida/DW
کشمیر میں موسم خزاں کے رنگ
کشمیر یونیورسٹی چنار کے اپنے منفرد درختوں کے لیے معروف ہے۔ موسم گرما میں جہاں یہاں کی ہریالی قابل دید ہوتی ہے وہیں خزاں میں اس کی منفرد رنگت۔ یونیورسٹی کے تمام شعبے چنار کے درختوں کے درمیان انہیں کے سائے میں پروان چڑھے ہیں۔
تصویر: Rouf Fida/DW
کشمیر میں موسم خزاں کے رنگ
کشمیر یونیورسٹی کا یہ نسیم باغ چنار کے اپنے قدیم ترین درختوں کے لیے معروف ہے۔ کشمیر میں یہ مغلوں کا قدیم ترین باغ ہے جسے سب سے پہلے مغل شہنشاہ اکبر نے 1588 میں تعمیرکرایا تھا۔ پھر شاہ جہاں نے 1686 میں تقریباً 1200 سو مزید چنار کے درخت لگوائے۔ اس وقت یہاں تقریبا 700 ہی درخت رہ گئے ہیں۔
تصویر: Rouf Fida/DW
کشمیر میں موسم خزاں کے رنگ
نسیم باغ اپنے نا م کی طرح اسم بامسمی ہے۔ یونیورسٹی اب اسے چنار ہریٹیج پارک کے طور پر فروغ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔
تصویر: Rouf Fida/DW
کشمیر میں موسم خزاں کے رنگ
موسم گرما میں چنار کے درخت اپنی ہریالی اور پرسکون سائے کے لیے معروف ہیں، تاہم ان کے دیدار کے لیے لوگ موسم خزاں میں زیادہ آتے ہیں۔ اکتوبر کے وسط سے نومبر کے اواخر تک یہ اپنے نت نئے رنگوں کے ساتھ نیا روپ اختیار کرتے ہیں۔
تصویر: Rouf Fida/DW
کشمیر میں موسم خزاں کے رنگ
کشمیر کے شالیمار باغ کا یہ ایک ڈرون شاٹ ہے۔ مغل شہنشاہ جہانگیر نے سن 1619 میں یہ باغ اپنی ملکہ نور جہاں کے لیے لگوایا تھا۔ یہ باغ بھی اپنے شاندار چنار کے درختوں اور آبشاروں کے لیے مشہور ہے، جس کے دیدارکے لیے بڑی تعداد میں سیاح آتے ہیں۔
تصویر: Rouf Fida/DW
کشمیر میں موسم خزاں کے رنگ
جنت نظیر کشمیر قدرتی حسن و جمال کے نظاروں سے مالا ہے۔ اس کے لہلہاتے سرسبز پہاڑ، آبشاریں اور خوبصورت جنگلات اسے ممتاز بناتے ہیں۔ اس کے موسم بھی اپنی مثال آپ ہیں اور خزاں کا اپنا ایک منفرد رنگ ہے۔
تصویر: Rouf Fida/DW
کشمیر میں موسم خزاں کے رنگ
بالی وڈ کے بعض فلم ہدایت کاروں نے کشمیر کے موضوع پر اپنی فلموں کو موسم خزاں میں شوٹ کیا۔ کئی فلموں میں چنار کے زرد اور لہو آلود پتوں کو وادی کشمیر کے تنازعے کو دکھانے کے لیے بطور استعارہ استعمال کیا گیا ہے۔ متن صلاح الدین زین