کشمیر ورکنگ گروپ رپورٹ: حمایت اور مخالفت بھی
24 دسمبر 2009ورکنگ گروپ کی اس رپورٹ میں اَٹانومی یعنی خودمختاری کی تجویز کو کافی اہمیت دی گئی ہے۔ وقتاً فوقتاً تنازعات کا شکار رہے اس ورکنگ گروپ کی رپورٹ کو حزب اختلاف پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے علاوہ بعض دیگر سیاسی جماعتوں نے نا مکمل قرار دیا ہے جبکہ علٰیحدگی پسند جماعتوں نے اس کی سفارشت کو رد کردیا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے سن 2006ء میں گرمائی دارالحکومت سری نگر میں منعقد کی گئی دوسری گول میز کانفرنس میں جن پانچ ورکنگ گروپوں کا قیام عمل میں لایا تھا، ان میں سے ایک کا مقصد ریاست اور مرکز کے درمیان تعلقات کا جائزہ لینا تھا۔ سپریم کورٹ کے سابق جسٹس صغیر احمد کی سربراہی میں قائم کیا گیا یہ ورکنگ گروپ متنازعہ خطے کی شورش سے پُر تاریخ کے پیش نظر تنازعات کا شکار رہا۔ اس گروپ نے ساڑھے تین سال سے زائد عرصے کے بعد اپنی رپورٹ پیش کرکے پھر سیاسی مباحثے کو جنم دے دیا ہے۔
اپنی سفارشات میں اس ورکنگ گروپ نے کہا کہ حکمران جماعت نیشنل کانفرنس کی طرف سے پیش کئے جانے والے اندرونی خودمختاری کے مطالبے کا کشمیر الحاق کی روشنی میں یا کسی اور طریقے سے جائزہ لیا جا نا چاہیے۔ اس رپورٹ کے مطابق ممکنہ حد تک داخلی خودمختاری کی بحالی کے لئے بھارتی وزیر اعظم کی طرف سے مناسب سمجھے جانے والے کسی بھی فارمولا پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔ تاہم گروپ نے کشمیر مسئلے کے حوالے سے حزب اختلاف پی ڈی پی کی طرف سے پیش کئے گئے ’سیلف رول فارمولا‘ یعنی خود حکمرانی کو اس بنا پر اپنے جائزے میں شامل نہیں کیا ہے کیونکہ اس جماعت نے اپنے وعدے کے مطابق ابھی تک اپنے اس فارمولے کو دستاویزی شکل میں پیش نہیں کیا ہے۔
جسٹس صغیر ورکنگ گروپ کی سفارشات کا خطے میں سرگرم سیاسی جماعتوں کی طرف سے ملا جلا رد عمل مل سامنے آیا ہے۔ حکمران جماعت نیشنل کانفرنس نے جہاں رپورٹ کا خیر مقدم کیا ہے وہیں حزب اختلاف پی ڈی پی اور مخلوط حکومت میں شامل جماعت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ کے ریاستی لیڈر محمد یوسف تاریگامی نے اسے نامکمل قرار دیا ہے ۔
کشمیری علٰحیدگی پسندوں نے پہلے ہی اس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے۔
رپورٹ: شجاعت بخاری، سری نگر
ادارت: گوہر نذیر گیلانی