یورپی پارلیمان میں جاری اعلٰی سطحی کانفرنس کے شرکاء نے کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال پر اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کا بھر پور خیر مقدم کیا ہے۔
اشتہار
کشمیر کونسل - ای یو کی جانب سے منعقدہ گیارہویں سالانہ کشمیر - ای یو ویک کے افتتاحی اجلاس میں سیشن کے صدر، سجاد حیدر کریم نے کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ جدوجہد آزادی کی ایک بڑی کامیابی ہے اور عالمی برادری کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے درکار سیاسی ارادہ پختہ کرتے ہوئے ’تجارتی تعلقات میں انسانی حقوق کو شرط بنانا چاہیے‘۔
کشمیر گلوبل کونسل کے سربراہ، فاروق صدیقی کا بھارتی زیر انتظام کشمیر کی صورتحال کے حوالے سے کہنا تھا، ’’ایسا کوئی انسانی حق یا آزادی نہیں جس کی کشمیر میں پامالی نہیں کی جا رہی۔۔۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں پاکستانی زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے لیکن بھارتی زیر انتظام کشمیر میں جاری ظلم و ستم کے مقابلے میں یہ عشر عشیر بھی نہیں۔‘‘
’گواہی‘:بھارت کے ریاستی تشدد کے اثرات کی عکس بندی
کشمیر کونسل - ای یو کی جانب سے منعقدہ گیارہویں سالانہ کشمیر - ای یو ویک کے افتتاحی اجلاس میں بیلجیم کے معروف فوٹوگرافر، سیڈرک گربیہائے کی تصاویر دکھائی گئیں، جنہیں ’گواہی‘ کا عنوان دیا گیا تھا۔ ان تصاویر میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جاری مزاحمتی تحریک اور ریاستی تشدد کے سماجی، سیاسی، ثقافتی اور معاشی اثرات کی عکس بندی کی گئی تھی۔ ان تصاویر کو انتہائی پر اثر اور امن کی جدوجہد کا ورثہ قرار دیا گیا۔
سات دہائیوں میں 70 ہزار کشمیری ہلاک
انسانی حقوق کے عالمی شہرت یافتہ کارکن، جموں و کشمیر سول سوسائٹی اتحاد کے سربراہ، خرم پرویز کا کہنا تھا کہ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال بہتر ہونے کی بجائے بدتر ہوئی ہے: ’’گزشتہ سات دہائیوں میں ستر ہزار کشمیری شہید ہوئے ہیں، آٹھ ہزار لاپتہ ہیں اور ہزاروں پر جنسی تشدد کیا گیا ہے۔ تشدد کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ لاقانونیت کا دور دورہ ہے اور کالے قوانین رائج ہیں۔‘‘ خرم پرویز نے اقوام متحدہ کی رپورٹ کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس کی سفارشات پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا۔
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
10 تصاویر1 | 10
یورپی پارلیمان کے رُکن واجد خان کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے بغیر جنوبی ایشیا کی تعمیر و ترقی کے لیے درکار پائیدار امن ممکن نہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ جنوری 2019 میں یورپی یونین کی انسانی حقوق کمیٹی میں کشمیر کے حوالے سے خصوصی سماعت کی جائے گی۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ: مندر جات و سفارشات
اقوام متحدہ کی جانب سے 14 جون 2018 کو جاری کی جانے والی اس رپورٹ میں بھارتی زیر انتظام جموں و کشمیر میں جون 2016 سے اپریل 2018 کے دوران انسانی حقوق کی صورتحال اور پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کی صورت حال کا محاکمہ کیا گیا ہے اور سفارشات مرتب کی گئی ہیں۔ رپورٹ کے آغاز میں اس امر پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کی جانب سے اقوام متحدہ کے مشن برائے انسانی حقوق کو آز ادانہ تحقیق و تفتیش کی اجازت نہ دی گئی لہٰذا انہیں ضمنی(مگر معتبر اور ناقابل تردید) ذرائع یعنی شہادتوں، تجزیوں اور رپورٹوں پر انحصار کرنا پڑا۔
رپورٹ کا آغاز آٹھ نومبر 2016 کو حزب مجاہدین کے بائیس سالہ نوجوان کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت سے ہوتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ’’کشمیر میں احتجاج کی لہریں 1980 کے اواخر اور 1990 کے آغاز میں بھی اٹھیں، 2008 میں بھی اور 2010 میں بھی لیکن برہان وانی کی ہلاکت کے خلاف ہونے والے احتجاج میں نہ صرف لوگوں کی تعداد بہت زیادہ تھی بلکہ اس کی قیادت، نوجوانوں اور نچلے اور درمیانے طبقے کے کشمیریوں کے ہاتھ میں تھی جن میں ایک بڑی تعداد میں خواتین بھی شامل تھیں۔ سول سوسائٹی کے اندازوں کے مطابق جولائی 2016 سے مارچ 2018 کے دوران 145 کشمیریوں کو ہلاک کیا گیا اور سینکڑوں افراد زخمی اور بینائی سے محروم ہوئے۔ بھارتی افواج کی جانب سے استعمال ہونے والا خطرناک ترین ہتھیار پیلٹ گن تھا۔ کشمیر کی چیف منسٹر محبوبہ مفتی کے مطابق جولائی 2016 سے فروری 2017 کے دوران 6221 افراد پیلٹ گن سے زخمی ہوئے۔‘‘
رپورٹ میں بھارتی زیر انتظام کشمیر میں لاقانونیت، ریاستی تشدد، انسانی حقوق کی پامالیوں، نظام انصاف کے مفلوج ہونے اور مسلح افواج کو لامحدود اختیارات دینے والے قوانین (آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ – 1990) اور پبلک سیفٹی ایکٹ 1978 کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 2016-17 کے دوران ایک ہزار لوگوں کو گرفتار کیا گیا جن میں بچے بھی شامل تھے۔ اس احتجاجی لہر کے دوران طویل کرفیو، نظام نقل و حمل کی معطلی، طبی سہولیات سے محرومی، موبائل فون، اخبارات، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کی بندش کے سبب نظام زندگی مکمل طور پر معطل ہو گیا۔ اس رپورٹ میں ہزاروں لاپتہ افراد، پونچھ اور راجوڑی سیکٹر میں دریافت ہونے والی اجتماعی قبروں (2012 ) اور کونن پوشپورہ (1991) کے اجتماعی زنا بالجبر کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق لشکر طیبہ، جیش محمد، حزب المجاہدین اور حرکت المجاہدین جیسی متعدد جہادی تنظیمیں سرگرم عمل ہیں جو اغواء، قتل اور جنسی جرائم میں ملوث ہیں۔ ان تنظیموں نے نہتے شہریوں، سیاسی جماعتوں اور سیاسی راہ نماؤں کو نشانہ بنایا ہے۔ 1989 سے اب تک 650 کشمیری پنڈت قتل کیے جا چکے ہیں اور 62,000 کو اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسرے مقامات پر منتقل ہونا پڑا۔ رپورٹ کے مطابق، ’’ماہرین کے خیال میں پاکستان ابھی تک بھارتی کشمیر کے مسلح گروہوں کی سرپرستی کر رہا ہے۔‘‘
رپورٹ میں پاکستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر اور بلتستاں کی ’’نام نہاد خود مختاری‘ اور در حقیقت پاکستانی ریاست کے غلبے، کشمیر اسمبلی میں الحاق پاکستان سے وفاداری کو ’لازم‘ قرار دینے کے قانون، ذرائع ابلاغ پر الحاق پاکستان کے منافی مواد شائع نہ کرنے کی پابندی، انسانی حقوق کے سینکڑوں کارکنوں کی انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت گرفتاری، گلگت بلتستان میں سی پیک معاہدہ کے تحت ہزاروں افراد کی بے دخلی اور اقلیتوں خصوصاﹰ احمدیوں کے ساتھ آئینی طور پر روا امتیازی سلوک کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں انسانی حقوق کے تحفظ سے متعلق متعدد سفارشات کے ساتھ ساتھ پاکستان اور بھارت دونوں سے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کا احترام کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
پاکستان کی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق، شیریں مزاری کی تجاویز
پاکستان کی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کو پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں آز ادانہ تحقیق کی اجازت نہ دینا سنگین غلطی تھی لیکن پاکستان کو ابھی بھی یہ اجازت دے کر اقوام متحدہ کی اس انتہائی معتبر رپورٹ کی بنیاد پر دنیا بھر میں رابطہ کاری کرنی چاہیے۔
شیریں مزاری نے امن تجاویز کا خاکہ پیش کرتے ہوئے پاکستان، بھارت اور کشمیریوں کے درمیان بیک وقت سہ طرفی اور سہ سطحی مذاکرات، دونوں جانب کے کشمیر سے فوجیں واپس بلانے اور ریفرنڈم کمیشن کے قیام کی تجاویز دیں۔ شیریں مزاری کے مطابق، ’’پاکستان اور بھارت کے حکمران طبقات مسئلہ کشمیر کا حل نہیں، صرف منیجمنٹ چاہتے ہیں جو، ’تنگ نظری پر مبنی ایک سرنگ بند سوچ‘ ہے۔
’’بھارت کشمیر پر اپنا اخلاقی جواز کھو بیٹھا ہے‘‘
اسلام آباد میں ہونے والے پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس کا مقصد پاکستان کی جانب سے دنیا کو لائن آف کنٹرول پر جنگی کیفیت اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیری مظاہرین پر تشدد کے بارے میں آگاہ کرنا بتایا گیا ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس
وزیر اعظم، سینیئر سیاسی قائدین اور اپوزیشن کے اراکین اجلاس میں شریک ہوئے۔ پاکستان کے سکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے اجلاس میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر اور لائن آف کنٹرول کی صورت حال پر سیاست دانوں کو بریفنگ دی۔ اجلاس میں شریک سیاسی قائدین نے مسئلہ کشمیرپرحکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
نان اسٹیٹ ایکٹرز کو برداشت نہیں کریں گے
پارلیمانی اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو بھی شریک ہوئے۔ اجلاس کے اختتام پر میڈیا سے گفتگو میں بلاول بھٹو نے کہا،’’ بھارت کشمیر پر اخلاقی جواز کھو چکا ہے، کشمیر کے معاملے پر تمام سیاسی جماعتوں کا موقف ایک ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا،’’ دنیا کو بتانا ہے کہ ہم نان اسٹیٹ ایکٹرز کو برداشت نہیں کریں گے۔‘‘
تصویر: DW/R. Saeed
سیاسی رہنماؤں کی تجاویز کی روشنی حکمت عملی طے کی جائے گی
مولانا فضل الرحمان نے اس موقع پر کہا،’’ مشکل وقت میں قومی اتحاد وقت کا تقاضہ ہے۔‘‘ وزیر اعظم نواز شریف نے اجلاس میں تمام سیاسی رہنماؤں کی رائے کو سنا۔ نواز شریف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سیاسی رہنماؤں کی تجاویز کی روشنی حکمت عملی طے کی جائے گی۔
تصویر: DW/R. Saeed
’کشمیر پر بھارت کے دعوے کو مسترد کرتے ہیں‘
اس اجلاس کے اعلامیہ میں لکھا گیا ہے،’’بھارت سرحد پار دہشت گردی کا معاملہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے اٹھا رہا ہے، کشمیر پر بھارت کے دعوے کو مسترد کرتے ہیں۔‘‘ اعلامیہ میں لکھا گیا ہے کہ بھارت کی جانب سے آپس میں بات چیت کرنے کے مواقعوں کو ضائع کرنے کے عمل کی مذمت کرتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
کشمیر ایک متنازعہ علاقہ
اعلامیہ میں لکھا گیا ہے کہ بھارت نے خود اقوام متحدہ میں تسلیم کر رکھا ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ بھارت بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے اور کلبھوشن یادو جیسے ’را‘ کے ایجنٹ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرر ہے ہیں۔ اعلامیہ میں بھارت کے پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کے دعوے کو بھی مسترد کیا ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
لائن آف کنٹرول پر کشیدگی جاری
پاکستانی فوج کے شعبہء تعلقات عامہ کی جانب سے آج صبح ایک بیان جاری کیا گیا جس کے مطابق بھارتی فوج کی جانب سے نیزہ پیر سیکٹر پر’’بلا اشتعال فائرنگ‘‘ کی گئی۔ اس سے قبل پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ لائن آف کنٹرول کے قریب افتخار آباد سیکٹر میں بھارت کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔ ان واقعات کے بعد آئی ایس پی آر کے ایک اور بیان میں کہا گیا کہ کیلار سیکٹر میں بھی بھارت کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس کا ایک اہل کار ہلاک
پاکستان اور بھارت کی افواج کے مابین فائرنگ کا سلسلہ اس واقعے کے چند گھنٹے بعد ہی پیش آیا ہے جس میں عسکریت پسندوں نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے بارہ مولا سیکٹر میں بھارتی فوج کے ایک کیمپ پر حملہ کر دیا تھا۔ اس حملے میں بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس کا ایک اہل کار ہلاک اور ایک زخمی ہو گیا ہے۔
تصویر: REUTERS/M. Gupta
‘اڑی حملے میں پاکستان ملوث ہے‘
واضح رہے کہ 18 ستمبر کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اڑی سیکٹر پر عسکریت پسندوں کی جانب سے ہونے والے حملے میں 19 بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ بھارت نے الزام عائد کیا تھا کہ حملہ آور پاکستان سے سرحد پار کرکے بھارت داخل ہوئے تھے۔ پاکستان نے ان الزامات کی تردید کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Mughal
’سرجیکل اسٹرائیک‘
دونوں ممالک میں کشیدگی مزید اس وقت بڑھی جب چند روز قبل بھارتی افواج کی فائرنگ سے پاکستان کی فوج کے دو سپاہی ہلاک ہو گئے۔ بھارت نے دعویٰ کیا کہ اس نے پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ایک ’سرجیکل اسٹرائیک‘ کی۔ پاکستان نے بھارت کا یہ دعویٰ مسترد کر دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Channi Anand
9 تصاویر1 | 9
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کشمیر کونسل کے سربراہ، علی رضا سید کا کہنا تھا، ’’ہم اقوام متحدہ کی رپورٹ کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ چونکہ پاکستان اور بھارت کی ریاستیں دو طرفہ طور پر مسئلہ کشمیر کے حل میں ناکام رہی ہیں لہٰذا عالمی برادری کو عملی کردار ادا کرنا ہو گا اور یہ رپورٹ اقوام متحدہ کی 1948 کی قرادادوں کے بعد دوسرا بڑا سنگ میل ہے۔‘‘
پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے ڈی ڈبلیو کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا، ’’ہم یہ نہیں چاہتے کہ دو کروڑ کشمیری ایک ارب سے زائد لوگوں کے مستقبل کو یرغمال بنا لیں لیکن کشمیریوں کے حقوق کا بھی احترام کرنا ہو گا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کی حکومتیں اس سمت میں پیش رفت کی راہ تلاش کریں۔ ہم کشمیری جنوبی ایشیا میں امن کے سہولت کار بن سکتے ہیں۔‘‘