کشمیر: کئی حصوں میں پھر کرفیو، محرم کے جلوس کے دوران جھڑپیں
8 ستمبر 2019
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں محرم کے ایک جلوس کے دوران شیعہ مسلم عزا داروں اور بھارتی سکیورٹی دستوں کے مابین ہونے والی جھڑپوں کے بعد وادی کے کئی علاقوں میں اتوار آٹھ ستمبر کو ایک بار پھر کرفیو لگا دیا گیا ہے۔
اشتہار
جموں کشمیر کے پاکستان اور بھارت کے درمیان منقسم اور متنازعہ خطے کے بھارت کے زیر انتظام حصے کے دارالحکومت سری نگر سے اتوار آٹھ ستمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق مقامی حکام کے علاوہ عینی شاہدین نے بھی تصدیق کی کہ کل ہفتہ سات ستمبر کی شام محرم کے ایک روایتی جلوس کے دوران بھارتی دستوں نے جب عزا داروں کو روکنے کی کوشش کی، تو جلوس میں شریک شیعہ مسلمانوں اور سکیورٹی فورسز کے مابین جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ ان جھڑپوں میں کم از کم 12 مقامی باشندے اور چھ سکیورٹی اہلکار زخمی ہو گئے۔
ان جھڑپوں کے دوران بھارتی فورسز نے شرکاء کو منتشر کرنے کے لیے پیلٹ گنوں اور آنسو گیس کا استعمال بھی کیا۔ یہ کشیدگی اور تناؤ اس وقت پیدا ہوئے جب ہر سال نکالے جانے والے محرم کے روایتی جلوسوں کی طرح سری نگر میں اس سال بھی محرم کے پہلے عشرے کے دوران مقامی شیعہ مسلمانوں نے ایک جلوس نکالنے کی کوشش کی لیکن بھارتی دستے شرکاء کو جلوس کی صورت میں شہر میں نکلنے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہ تھے۔
جھڑپیں رات گئے تک جاری رہیں
ان جھڑپوں کے دوران شرکاء نے بھارتی سکیورٹی دستوں پر پتھراؤ بھی کیا جبکہ نیم فوجی سکیورٹی اہلکاروں نے مشتعل شرکاء کو منتشر کرنے کے لیے پیلٹ گنوں کے علاوہ آنسو گیس بھی استعمال کی۔ ایک مقامی حکومتی اہکار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی کہ یہ جھڑپیں ہفتے کو رات گئے تک جاری رہیں۔ اس دوران بھارتی سکیورٹی دستے مسلسل آنسو گیس کے شیل فائر کرنے کے علاوہ پیلٹ گنوں سے فائرنگ بھی کرتے رہے۔
روئٹرز نے اس سلسلے میں تازہ صورت حال اور حکومتی موقف جاننے کے لیے نئی دہلی میں ملکی وزارت داخلہ کی ایک خاتون ترجمان سے رابطے کی کوشش کی لیکن دوسری طرف سے کوئی جواب نہ دیا گیا۔
بھارتی مشیر کا پاکستان پر الزام
روئٹرز کے مطابق بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر نے اس صورت حال پر اپنے ردعمل میں کہا، ''لوگوں کی جانوں کے تحفظ اور امن قائم رکھنے کے لیے مناسب حد تک پابندیاں بہت ضروری ہیں۔‘‘
ساتھ ہی اس مشیر نے بھارت کی ہمسایہ لیکن حریف ایٹمی طاقت پاکستان پر یہ الزام بھی لگایا کہ اسلام آباد میں پاکستانی حکومت خطے میں 'تشدد اور بدامنی کو ہوا دینے‘ کی کوشش کر رہی ہے۔
سری نگر کے شیعہ اکثریتی علاقے
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے سب سے بڑے شہر سری نگر کے دو علاقے ایسے ہیں، جہاں مقامی آبادی میں اکثریت شیعہ مسلمانوں کی ہے۔ اسی لیے وہاں ہر سال محرم کے اسلامی مہینے میں عزا داری کے دوران ماتمی جلوس بھی نکالے جاتے ہیں۔ ایسے جلوس ہر سال اپنے مقررہ راستوں سے گزرتے ہیں لیکن اس مرتبہ بھارتی سکیورٹی فورسز نے ایسے جلوس نکالنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا، جس پر مقامی شیعہ مسلمان شدید ناراض تھے۔
کشمیر میں کرفیو، موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آج علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی پہلی برسی منائی جا رہی ہے۔ اس موقع پر کشمیر کے زیادہ تر حصوں میں کرفیو نافذ ہے اور موبائل سمیت انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی ہے۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں مشتعل مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
اس موقع پر بھارتی فورسز کی طرف سے زیادہ تر علیحدگی پسند لیڈروں کو پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا یا پھر انہیں گھروں پر نظر بند کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
بھارتی فورسز کی جانب سے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کے ساتھ ساتھ گولیوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
مظاہرین بھارت مخالف نعرے لگاتے ہوئے حکومتی فورسز پر پتھر پھینکتے رہے۔ درجنوں مظاہرین زخمی ہوئے جبکہ ایک کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
ایک برس پہلے بھارتی فورسز کی کارروائی میں ہلاک ہو جانے والے تئیس سالہ عسکریت پسند برہان وانی کے والد کے مطابق ان کے گھر کے باہر سینکڑوں فوجی اہلکار موجود ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
برہان وانی کے والد کے مطابق وہ آج اپنے بیٹے کی قبر پر جانا چاہتے تھے لیکن انہیں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
باغی لیڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دوران سکیورٹی اہلکاروں کی جوابی کارروائیوں میں اب تک ایک سو کے قریب انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
کشمیر کے علیحدگی پسند لیڈروں نے وانی کی برسی کے موقع پر ایک ہفتہ تک احتجاج اور مظاہرے جاری رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
ایک برس قبل آٹھ جولائی کو نوجوان علیحدگی پسند نوجوان لیڈر برہان وانی بھارتی فوجیوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
9 تصاویر1 | 9
اسی لیے کل ہفتے کے روز رات گئے تک جاری رہنے والی سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں بھی زیادہ تر انہی علاقوں میں ہوئیں جہاں اکثریتی آبادی مقامی شیعہ مسلمانوں کی ہے۔ جس جلوس کو مسلح فورسز نے روکنے کی کوشش کی، وہ روایتی طور پر اپنے پانچ کلومیٹر طویل راستے سے گزرتا ہوا سری نگر شہر کے مرکز سے بھی گزرتا ہے۔
پیراملٹری حکام کے لاؤڈ اسپیکروں پر اعلانات
روئٹرز نے کئی مقامی شاہدین کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ان جھڑپوں کے بعد بھارتی حکام نے کشمیر کے کئی علاقوں میں دوبارہ کرفیو لگا دیا ہے۔ آج اتوار کو پولیس کی گاڑیوں پر نصب کردہ لاؤڈ اسپیکروں کی مدد سے حکام شہر میں کرفیو جیسی پابندیوں کا اعلان کرتے دکھائی اور سنائی دیے۔ یہ 'کرفیو جیسی پابندیاں‘ خاص طور پر سری نگر شہر کے وسط میں لال چوک اور اس سے ملحقہ علاقوں میں لگائی گئی ہیں۔
اس دوران پولیس کی طرف سے لاؤڈ اسپیکروں پر ایسے اعلان کیے جا رہے تھے، ''عام شہریوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اپنے گھروں میں ہی رہیں اور باہر نکلنے کی کوشش نہ کریں۔‘‘ متعدد مقامی باشندوں نے روئٹرز کو بتایا کہ سری نگر شہر کے اس علاقے میں بھارتی دستوں اور مقامی باشندوں کے مابین بار بار ہونے والی جھڑپیں دراصل گزشتہ تین چار دنوں سے جاری ہیں۔
م م / ع س / روئٹرز
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔