1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
آزادی اظہار

کشمیر کا دورہ کرنے والے یورپی ارکان پارلیمان کون ہیں؟

شمشیر حیدر
29 اکتوبر 2019

یورپی پارلیمان کے ستائیس ارکان بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے دورے پر سری نگر پہنچ گئے ہیں۔ یہ منتخب ارکان کون ہیں اور وہ بھارت اور کشمیر کے دورے پر کیوں گئے ہیں؟

Indien Narendra Modi empfängt die Delegation des Europaparlament in Neu Delhi
تصویر: Reuters/India's Press Information Bureau

اگست کے اوائل میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی نیم خود مختار آئینی حیثیت ختم کرنے کے اعلان کے بعد سے اس متنازعہ خطے میں عملی طور پر لاک ڈاؤن اب تک جاری ہے۔

کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور انٹرنیٹ اور معلومات کے بلیک آؤٹ کے سبب نئی دہلی حکومت کو عالمی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

تجزیہ کاروں کی رائے میں ایسی صورت حال میں مودی حکومت کی جانب سے یورپی پارلیمان کے ارکان کو کشمیر کا دورہ کروانے کا مقصد عالمی سطح پر اپنا تشخص بہتر بنانے اور دباؤ کم کرنے کی بھارتی کوششوں کا حصہ ہے۔

یورپی ارکان پارلیمان کی سری نگر آمد

ستائیس ارکان پر مشتمل یہ یورپی پارلیمانی گروپ آج منگل انتیس اکتوبر کے روز سخت سکیورٹی میں سری نگر پہنچ چکا ہے۔

نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق وفد کی آمد سے قبل بھارتی سکیورٹی فورسز کی بڑی تعداد میں موجودگی کے باوجود سری نگر میں چالیس مقامات پر چھوٹے پیمانے پر مظاہرے کیے گئے۔ سکیورٹی فورسز نے آنسو گیس کے شیل فائر کر کے مظاہرین کو منتشر کر دیا۔

کشمیر سے متعلق بھارتی فیصلہ: کس ملک نے کیا کہا؟

روئٹرز نے عینی شاہدین کے حوالے سے یہ بھی لکھا ہے کہ سری نگر میں دکانیں اور بازار بند ہیں جب کہ مظاہروں کے باعث شہر کی کئی سڑکوں پر پتھر بکھرے ہوئے ہیں۔

کشمیر ’نیوکلیئر فلیش پوائنٹ‘ ہے

06:28

This browser does not support the video element.

یورپی یونین کی پارلیمان کے ارکان کو بھارتی فوج نے قافلے کی صورت میں سری نگر کے کنٹونمنٹ ایریا میں پہنچایا۔ حکام کے مطابق اسی فوجی چھاؤنی میں مقامی سول سوسائٹی اور کاروباری افراد سے ان ارکان کی ملاقات کرائی جائے گی۔

دورے کا انتظام کس نے کیا؟

کشمیر کے دورے پر جانے والے یورپی پارلیمانی ارکان پر مشتمل یہ وفد نجی حیثیت میں یہ دورہ کر رہا ہے۔ یہ ارکان نہ تو یورپی پارلیمنٹ کی جانب سے بھیجے گئے ہیں اور نہ ہی انہیں نئی دہلی حکومت نے کوئی باقاعدہ سرکاری دعوت دی تھی۔

اس ضمن میں برسلز میں قائم کشمیریوں کی غیر سرکاری تنظیم 'کشمیر کونسل ای یو‘ کے چیئرمین علی رضا سید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس دورے کا انتظام مادی شرما نامی ایک خاتون نے کیا۔

بھارت کے مقامی میڈیا کے مطابق مادی شرما این جی اوز کے ساتھ ساتھ 'ویسٹ‘ نامی ایک تھنک ٹینک بھی چلاتی ہیں اور یہی تنظیم اس دورے کی اسپانسر بھی ہے۔

بھارتی سوشل میڈیا صارفین بھی ان ارکان پارلیمان کے دورہ کشمیر اور وزیر اعظم مودی سے ملاقات میں مادی شرما کے کردار پر سوال اٹھاتے دکھائی دیے۔

وفد میں شامل ارکان پارلیمان کون ہیں؟

یورپی پارلیمان کے ارکان کے اس وفد میں یورپی یونین کے رکن ممالک میں سے گیارہ ریاستوں سے تعلق رکھنے والے ستائیس اراکین شامل ہیں۔ ان میں سے اکثریت کا تعلق یورپ کی انتہائی دائیں بازو کی عوامیت پسند جماعتوں سے ہے۔

ان میں دائیں بازو کی فرانسیسی عوامیت پسند رہنما مارین لے پین کی جماعت سے تعلق رکھنے والے چھ، پولینڈ میں دائیں بازو کی جماعت پی آئی ایس سے تعلق رکھنے والے پانچ اور برطانیہ کی بریگزٹ پارٹی کے چار ارکان یورپی پارلیمان بھی شامل ہیں۔

جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی کے علاوہ سپین، بیلجیم اور چیک جمہوریہ کی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے بھی دو دو ارکان اس وفد میں شامل ہیں۔

پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں خودمختاری کی زور پکڑتی تحریک

علی رضا سید کے مطابق اس وفد میں شامل کچھ ارکان پارلیمان نے سترہ ستمبر کو سٹراسبرگ میں کشمیر سے متعلق گفتگو کے دوران بھی بھارت کی حمایت کی تھی۔

برطانیہ کی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک رکن بھی بھارت جانے والے اس گروپ کا حصہ ہیں۔ اسی جماعت سے تعلق رکھنے والے کرس ڈیوس کو بھی دعوت دی گئی تھی تاہم بعد ازاں ان کا دعوت نامہ منسوخ کر دیا گیا۔

کرس ڈیوس کے مطابق انہوں نے کشمیر کے دورے کے دوران پولیس، مقامی شہریوں اور صحافیوں سے آزادانہ گفتگو کی اجازت پر اصرار کیا تھا جس کے بعد ان کو دی گئی دعوت واپس لے لی گئی تھی۔ کرس ڈیوس نے ایک بیان میں کہا، ''میں مودی حکومت کی تعلقات عامہ کی شعبدہ بازی کا حصہ بن کر یہ نہیں دکھانا چاہتا کہ سب ٹھیک ہے۔‘‘

دورہ سفارتی شکوک و شبہات کا باعث

فرانسیسی نشریاتی ادارے فرانس 24 کے مطابق اس دورے کو بھارتی حکومت کی حمایت تو حاصل ہے تاہم اس کی تیاریوں اور اس پر عمل درآمد میں یورپی پارلیمان اور یورپی یونین کو کسی بھی سطح پر شامل نہیں کیا گیا تھا اور یہ حقیقت سفارتی سطح پر شکوک و شبہات کا باعث بھی بنی ہے۔

نئی دہلی میں کئی یورپی ممالک کے سفارت خانے بھی اس دورے کے بارے میں پیر اٹھائیس اکتوبر تک بالکل لاعلم تھے۔

کشمیر: لندن میں ’پرتشدد‘ مظاہرہ، مودی کی بورس جانسن سے گفتگو

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں