کشمیر کا نیا سیاسی بحران: ذمہ دار کون؟
8 جولائی 2008بھارت کے زیر انتظام مسلم اکثریتی ریاست جموّں و کشمیر میں ہندوٴوں کی ایک مقدس غار واقع ہے جسے امرناتھ گُپھا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہر سال بھارت کی مختلف ریاستوں سے لاکھوں ہندو عقیدت مند امرناتھ غار کی زیارت کے لئے وادی کشمیر کا رُخ کرتے ہیں۔
نیشنل کانفرنس کے دور اقتدار میں اس یاترا کے انتظامات کے لئے شری امرناتھ شرائن بورڈ تشکیل دیا گیا تھا۔ اور ابھی حال ہی میں عقیدت مندوں یا یاتریوں کو سہولیات فراہم کرنےکے لئے ریاست میں پی ڈی پی اور کانگریس کی مخلوط حکومت کی کابینہ نے شرائن بورڈ کو آٹھ سو کنال زمین منتقل کرنے کا فیصلہ کیا‘ جو بعد میں واپس لیا گیا۔ لیکن یہی تنازعہ کشمیر کے موجودہ بحران کی وجہ بنا۔
سات جولائی کو بھارت کے زیر انتظام ریاست جموّں و کشمیر میں مخلوط حکومت کے وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ غلام نبی آزاد کے استعفے کے بعد اب کشمیر کو ایک سیاسی بحران کا سامنا ہے۔ ریاست جموّں و کشمیر سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامے‘ 'کشمیر امیجز' کے ایڈیٹر اور معروف تجزیہ نگار بشیر منظر موجودہ بحران کے حوالے سے کہتے ہیں کہ رواں سال کے اواخر میں ہونے والے انتخابات میں سب سے زیادہ فائدہ مقامی سیاسی جماعت‘ نیشنل کانفرنس کو ہوسکتا ہے۔
سیاسی بحران کی شکار ریاست میں سرگرم علیحدگی پسند رہنماٴوں نے زمین منتقلی کے فیصلے کو ایک مذموم سازش سے تعبیر کیا۔ معروف علیحدگی پسند رہنما اور حریت کانفرنس کے سخت گیر دھڑے کے چیئرمین‘ سید علی شاہ گیلانی نے سرینگر میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ زمین منتقلی کے حکومتی فیصلے نے کشمیری عوام میں یہ احساس پیدا کردیا ہے کہ 'بھارت کے فوجی قبضے میں کشمیر کی ثقافت‘ زمین‘ عزت اور وقار محفوظ نہیں ہے'۔
شدید عوامی رد ّعمل کو مدنظر رکھتے ہوے مخلوط حکومت میں شامل اہم جماعت‘ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے حکومت سے علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس حوالے سے بھارتی پارلیمان کی رکن اور پی ڈی پی کی صدر‘ محبوبہ مفتی نے کہا کہ ان کی جماعت لوگوں کے جزبات اور احساسات کو ہرگز نظر انداز نہیں کرسکتی ہے۔
پی ڈی پی کی طرف سے حمایت واپس لینے کے فیصلے کے نتیجے میں کانگریس کی سربراہی والی مخلوط حکومت کو شدید دھچکہ پہنچا اور اس طرح ریاست کو ایک نئے بحران کا سامنا ہوا۔ شدید دباٴو کے پیش نظر ریاستی حکومت نے شرائن بورڈ کو زمین منتقل کئے جانے کا فیصلہ واپس لیا۔ لیکن اس فیصلے کے خلاف سیاسی بے چینی کی شکار ریاست کے جموّں صوبے میں ہندوٴوں کی طرف سے احتجاجی مظاہرے سامنے آئے۔ ہر گُزرتے دن کے ساتھ ریاستی وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد پر سیاسی دباٴو بڑھتا ہی چلا گیا اور بالآخر سات جولائی کو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔
ریاستی گورنر نے وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد کو ایوان میں اکثریت ثابت کرنے کے لئے سات جولائی تک کی مہلت دی تھی۔ لیکن وزیر اعلیٰ نے ریاستی اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے تحریک جاری کرنے کے بجائے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔
کشمیر کی ریاستی اسمبلی کل ستاسی ارکان پر مشتمل ہے۔ سن دو ہزار دو میں منعقد ہونے والے اسمبلی انتخابات میں کسی بھی جماعت کو اکثریت حاصل نہیں ہوئی تھی۔ نومبر‘ دو ہزار دو میں پی ڈی پی اور کانگریس نے دیگر چھوٹی جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل دی تھی۔ کشمیر میں اگلے ریاستی انتخابات رواں سال کے اواخر میں ہونے والے ہیں۔