1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا کشمیر میں شدت پسندی ختم ہونے والی ہے؟

15 مئی 2022

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع شوپیان میں تیئیس سالہ توصیف احمد بھٹ لاپتہ ہیں۔ اس خطے میں یہی رجحان رہا ہے کہ گمشدہ ہونے والے اکثر نوجوان شدت پسندی کا راستہ اختیار کرتے ہیں لیکن کیا عسکریت پسندی خاتمے کے دہانے پر ہے؟

تصویر: Saqib Majeed/ZUMAPRESS/picture alliance

توصیف احمد بھٹ کے لاپتہ ہونے کے واقعے پر بھی یہی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ انجینیئرنگ کے اس طالب علم نے بھی کسی عسکریت پسند تنظیم میں شمولیت اختیار کی ہو گی، جس کے باعث متاثرہ خاندان پریشان ہے۔ کنبے نے توصیف کی واپسی کے لیے عوام اور حکام سے مدد کی جذباتی اپیل بھی کی ہے۔

اہل خانہ کی اپیل

''میرا بیٹا توصیف احمد اتوار کو گھر سے نکلا، ابھی تک ہمیں اس کا کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔ سب سے میری گزارش ہے کہ میرے بیٹے کو تلاش کرنے میں ہماری مدد کریں۔‘‘ یہ الفاظ توصیف کی والدہ کے ہیں جنہیں اپنے بیٹے کا غم کھائے جا رہا ہے۔ توصیف کی بہن نے پرنم آنکھوں سے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا، ''میں توصیف کی ہمشیرہ ہوں۔ سب سے میری یہی گزارش ہے کہ میرے بھائی کو گھر واپس لانے میں ہماری معاونت کریں۔ بھائی سے بہت ساری امیدیں اور توقعات وابستہ ہیں۔ ہمیں کچھ نہیں پتہ کہ وہ کہاں چلا گیا ہے۔‘‘  لاپتہ نوجوان کے والد نے جموں و کشمیر کی انتظامیہ،  مقامی پولیس اور دیگر اعلیٰ افسران سے اپیل کی کہ توصیف کو ڈھونڈنے میں متاثرہ فیملی کی ہر ممکن مدد کی جائے۔

گزشتہ ڈھائی برسوں سے عسکریت پسندوں کو پناہ گاہ فراہم کرنے والے شہریوں کی املاک انسداد دہشت گردی کے قانون ‘یو اے پی اے' کے تحت ضبط بھی کی جاتی ہیں۔تصویر: Saqib Majeed/ZUMAPRESS/picture alliance

بھارتی فوج کے ایک اعلیٰ افسر کے مطابق اس وقت وادیء کشمیر میں ایک سو اڑسٹھ عسکریت پسند سرگرم عمل ہیں جبکہ فوج نے رواں برس جنوری تا اپریل مختلف جھڑپوں میں 75 عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ بھارتی فوج کے مطابق اس سال مارے جانے والے عسکریت پسندوں میں اکیس بیرونی عسکریت پسند بھی شامل ہیں۔

اعداد و شمار ایک دوسرے سے مختلف

نئی دہلی میں مقیم معروف مصنفہ اور سلامتی امور کی ماہر غزالہ وہاب نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سکیورٹی فورسز اعداد و شمار کو ہتھیار بنا کر کشمیر میں ملی ٹینسی پر اپنا غلبہ ظاہر کرنے کی دوڑ میں لگے ہوتے ہیں۔ عسکریت پسندوں کی تعداد میں اتار چڑھاؤ کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ مختلف ایجنسیاں یعنی بھارتی فوج، نیم فوجی دستے اور جموں و کشمیر پولیس حکومت ہند اور ذرائع ابلاغ کو کیا پیغام دینا چاہتی ہیں۔‘‘

مشہور کتب ‘ڈریگن آن آور ڈور اسٹیپ' اور ‘بارن اے مسلم' کی مصنفہ غزالہ وہاب نے ڈی ڈبلیو کو مزید بتایا کہ اگر ان کی یادداشت ان کا ساتھ دے رہی ہے تو کشمیر میں عسکریت پسندی کے حوالے سے مختلف سکیورٹی ایجنسیوں کے اعداد و شمار میں ہمیشہ ہی گڑبڑ اور تضاد پایا گیا ہے۔ اعداد و شمار غیر ضروری ہیں، میری رائے میں اصل بات یہ ہے کہ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے جس کا سیاسی حل ناگزیر ہے۔ عسکریت پسندی بیماری نہیں بلکہ بیماری کی کئی وجوہات میں سے ایک ہے۔‘‘

عسکریت پسندی کا گڑھ

گزشتہ لگ بھگ ایک دہائی سے جنوبی کشمیر کے کلگام' اننت ناگ' شوپیان اور پلوامہ نامی چار اضلاع مقامی اور بیرونی عسکریت پسندوں کا گڑھ تصور کیے جاتے رہے ہیں۔ انہی اضلاع کے مختلف گاؤں دیہات میں عسکریت پسندوں اور بھارتی فوج کے مابین خون ریز جھڑپیں ایک معمول کی بات ہے۔ جن گھروں میں عسکریت پسند پناہ لیتے ہیں انہیں بھارتی فوج اور مقامی پولیس کے اہلکار بارودی مواد سے تباہ کر دیتے ہیں جبکہ گزشتہ ڈھائی برسوں سے عسکریت پسندوں کو پناہ گاہ فراہم کرنے والے شہریوں کی املاک انسداد دہشت گردی کے قانون ‘یو اے پی اے' کے تحت ضبط بھی کی جاتی ہیں۔

اگست دو ہزار انیس میں جموں و کشمیر کی داخلی خود مختاری'خصوصی پوزیشن اور ریاستی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے بھارتی حکام مسلسل یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ بحران زدہ خطے میں اب جلد ہی عسکریت پسندی کا خاتمہ ممکن ہے۔

مقامی حمایت میں کمی

ابھی حال ہی میں جموں و کشمیر پولیس کے انسپکٹر جنرل وجے کمار نے سری نگر میں میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ کشمیر میں عسکریت پسندی اب اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔ پولیس کے سربراہ متعدد بار یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ عسکریت پسندوں کو مقامی لوگوں کی طرف سے ملنے والی حمایت اور معاونت میں بھی بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے۔ کمار کے بقول رواں برس کے اواخر تک عسکریت پسندوں کی مجموعی تعداد ڈیڑھ سو سے بھی کم کرنا ان کا اگلا ہدف ہے۔

دوسری جانب بھارتی نیم فوجی دستے سینٹرل ریزرو پولیس فورس یا سی آر پی ایف کے اعلیٰ افسران کے مطابق، ''گزشتہ دو برسوں میں کشمیر میں مقامی عسکریت پسندوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سکیورٹی حکام کے لیے سخت تشویش کا باعث ہے۔‘‘ بھارتی خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے سی آر پی ایف ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ بیرونی عسکریت پسندوں کے مقابلے میں اب کشمیر کے مقامی نوجوان ہی عسکریت پسندی کا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔

بھارتی زیر انتظام کشمیر میں میڈیا چپ ہوتا ہوا

03:24

This browser does not support the video element.

مسلح تحریک کا آغاز

کشمیر میں انیس سو نواسی میں بھارت کی حکمرانی کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا تھا۔ انیس سو نوے کی دہائی کے اوائل میں عسکریت پسندوں کی مجموعی تعداد بیس ہزار سے تجاوز کر چکی تھی تاہم بھارتی فوج، نیم فوجی دستوں اور مقامی پولیس کے اینٹی ملی ٹینسی آپریشنز سے عسکریت پسندی کی کمر ٹوٹ گئی اور دو ہزار دس تک عسکریت پسندوں کی مجموعی تعداد تین سو تک سمٹ کر رہ گئی۔ اس وقت حکام کے مطابق اب یہ تعداد دو سو سے بھی کم ہے۔

عسکریت پسندوں کو تربیت نہیں مل رہی

تجزیہ نگار ریاض احمد کے مطابق،''مقامی عسکریت پسندوں کے پاس  جنگی تربیت نہیں ہے، ہتھیار  اور دیگر ذرائع بھی نہیں ہیں جبکہ پاکستان اپنے زیر انتظام کشمیر کے حصے کو بھارت کے ممکنہ حملے سے بچانے کے لیے بحران کو دھیمی آنچ پر رکھنے میں ہی اپنی خیر سمجھتا ہے۔‘‘

ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں احمد نے مزید کہا کہ گزشتہ ایک دہائی سے ہر سال ڈیڑھ سو تا دو سو عسکریت پسندوں کو مارا جاتا رہا ہے لیکن پھر ہر سال یہی بتایا جاتا ہے کہ اب بھی دو سو عسکریت پسند سرگرم عمل ہیں۔‘‘

پاکستانی حمایت میں کمی

تجزیہ نگاروں کے بقول انیس سو نواسی اور نوے کی دہائی کے کشمیری عسکریت پسندوں نے پاکستان سمیت افغانستان سے ہتھیاروں کی تربیت حاصل کی تھی۔ وہ جدید ہتھیاروں سے لیس تھے اور انہیں پاکستان کی طرف سے سیاسی، اخلاقی، مالی اور سفارتی حمایت بھی حاصل ہوا کرتی تھی تاہم اب ایسا نہیں ہے۔

بین الاقوامی امور کے ایک ماہر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ گزشتہ تین برسوں سے پاکستان کی جانب سے بھی عسکریت پسندوں کی حمایت میں بہت کمی واقع ہوئی ہے۔ مقامی نوجوان عسکریت پسندی کا راستہ اکثر جذباتی طور پر کرتے ہیں، ان کے پاس نہ مالی وسائل ہیں اور نہ ہی ہتھیاروں کی ٹریننگ۔

دہشت گردی کے حوالے سے کام کرنے والے ویب پورٹل 'ایس اے ٹی پی‘ کے مطابق کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسز نے دو ہزار اٹھارہ میں دو سو اکہتر، دو ہزار انیس میں ایک سو ترسٹھ، دو ہزار بیس میں دو سو بتیس، دو ہزار اکیس میں ایک سو ترانوے جبکہ رواں سال اپریل تک سڑسٹھ شدت پسندوں کو ہلاک کیا ہے۔

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں