1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر کی صورتحال: ’قیادت اور سوجھ بوجھ کا فقدان‘

5 اگست 2010

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسندی کی تحریک ایک ایسے وقت پر زور پکڑتی جا رہی ہے، جب ماہرین کے بقول ریاستی حکومت میں قیادت کا فقدان نمایاں ہے۔

تصویر: UNI

بھارتی تجزیہ نگاروں کے خیال میں اس بار بیرونی مداخلت نہیں کی جا رہی بلکہ کشمیری نوجوان ہی اس تحریک کی قیادت کر رہے ہیں۔ دو ماہ سے حکومت مخالف مظاہروں اور ان کو دبانے کے لئے کئے گئے ریاستی اقدامات میں جو شدت دیکھی جا رہی ہے، اس سے 90ء کی دہائی کی یادیں تازہ ہو رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مرکزی حکومت کی جانب سے مسائل کی بنیادی وجوہات سے صرف نظر کے باعث حالات اور بھی تشویشناک ہوتے جا رہے ہیں۔

کشمیر کی موجودہ صورتحال اور اُس وقت کی صورتحال میں فرق محض یہ ہے کہ تب عالمی برادری کی اس جانب توجہ زیادہ تھی۔ اس صورتحال کو ایک سیاسی تجزیہ نگار نے یوں بیان کیا ہے کہ ’’عالمی طاقتیں آج کل بھارت کو ناراض نہیں کرنا چاہتیں۔‘‘

عمر عبداللہ سے وابستہ امیدیں اسی وقت دم توڑ گئیں، جب بھارتی فوج پر کشمیری خواتین کی عصمت دری اور انسانی حقوق کی دیگر پامالیوں کے الزامات کا انہوں نے خاطر خواہ نوٹس نہیں لیاتصویر: AP

بھارتی اخبار ’دی ہندو‘ میں لکھنے والے سٹریٹیجک امور کے ماہر سدھارتھ ورداراجن کے مطابق موجودہ صورتحال نئی دہلی حکومت کے لئے گزشتہ دو دہائیوں کی سنگین تر صورت حال ہے۔ وہ یہاں تک کہہ چکے ہیں: ’’بھارت سرکار کو یہ سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ اس صورتحال سے کیسے نمٹا جائے۔‘‘

عوامی احتجاج کو بذریعہ طاقت دبانے کی ریاستی کوششوں سے شہریوں کے غم و غصے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مظاہرین نے علٰیحدگی پسند رہنما سید علی گیلانی کی جانب سے پر امن رہنے کی درخواست بھی مسترد کر دی ہے۔ مظاہرین کے لئے عوامی حمایت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا رہا ہے کہ سری نگر کے ہسپتالوں میں زیر علاج زخمیوں کے لئے مقامی آبادی کی طرف سے خون اور خوراک کے عطیات جمع کئے گئے ہیں۔ مظاہروں میں خواتین کی بڑی تعداد بھی دیکھی جا رہی ہے۔

ایک اور علٰیحدگی پسند رہنما سجاد علی لون کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے خود اپنا راستہ منتخب کر لیا ہے، جس کی ’’اب سے پہلے کے عرصے میں کوئی مثال نہیں ملتی۔‘‘ سجاد لون نے تسلیم کیا ہے کہ کوئی بھی ایسا رہنما موجود نہیں، جس کے کہنے پر مظاہرین اپنے غم و غصے کو دبا کر احتجاج کرنا بند کر دیں۔

اکثریتی مسلم آبادی والی منقسم ریاست کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے مابین چھ عشروں سے بھی زیادہ عرصے سے تنازعہ پایا جاتا ہے۔ ریاست جموں کشمیر کے ایک حصے پر بھارت کو کنٹرول حاصل ہے تو دوسرا حصہ پاکستان کے زیر انتظام ہے۔ 1989ء میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں علٰیحدگی پسندی کی تحریک بہت زور پکڑ گئی تھی۔ اس ریاست کے نئی دہلی کے زیر انتظام حصے میں سینتالیس ہزار افراد محض گزشتہ چند برسوں کے دوران مختلف واقعات میں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔

عمر عبداللہتصویر: DW

بدامنی اور خونریز مظاہروں کے حالیہ سلسلے کا آغاز ایک نو عمر لڑکے کی مبینہ طور پر پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں ہلاکت سے ہوا تھا۔ حالیہ واقعات میں اب تک کم ازکم چالیس ہلاکتیں ہو چکی ہیں، جن میں سے بیشتر کی ذمہ داری سیکورٹی فورسز پر عائد کی جا رہی ہیں۔ کشیدگی بڑھنے سے بازار اور تعلیمی ادارے بھی بند ہیں اور معمولات زندگی مفلوج ہوکر رہ گئے ہیں۔

18 ماہ قبل جب نوجوان عمر عبداللہ نے کشمیر کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالی تھیں، تو ریاست میں ناانصافیاں ختم کرنے اور اقتصادی ترقی کے دعوے کئے گئے تھے۔ مرکزی حکومت کی حمایت کے باوجود ابھی تک وہاں کے حالات میں زیادہ بہتری نہیں دیکھی گئی۔ عمر عبداللہ سے وابستہ امیدیں اسی وقت دم توڑ گئیں، جب بھارتی فوج پر کشمیری خواتین کی عصمت دری اور انسانی حقوق کی دیگر پامالیوں کے الزامات کا انہوں نے خاطر خواہ نوٹس نہیں لیا تھا۔ سیاسی تجزیہ نگار مہیش رنگاراجن کے مطابق عمر عبداللہ نے صورتحال کو نہیں سنبھالا۔ ’’مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ مرکز نے بھی زیادہ توجہ نہیں دی۔‘‘

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں