کشمیر کے مرغزاروں کو پانی کی کمی کا سامنا
16 اگست 2013بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں زراعت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک مشکل کام ہوتا جا رہا ہے۔ اس علاقے میں پانی کا حصول مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا بھی کہا جاتا ہے کہ کئی ہونہار طلبا زراعتی مشکلات کی نذر ہو گئے ہیں۔ باغات اور کھیت کھلیان اپنے باغبانوں اور کسانوں کے منتظر ہیں۔ پانی کے حصول میں فالتو محنت سے مالی مسائل بھی جنم لے چکے ہیں۔ پانی کی کمیابی اور پھر کھیتی باڑی میں پیدا ہونے والی مشکلات سے ہزاروں خاندان متاثر بتائے جاتے ہیں۔ کشمیری قصبات اور دیہات میں رفتہ رفتہ کھیتی باڑی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔
ایک کشمیری کسان غفار راتھر نے بتایا کہ اس جیسے کئی خاندان کھیتی باڑی پر تکیہ کیے ہوئے ہیں اور پانی کی کم دستیابی نے ان کی زندگیوں کی بہار کو خزاں میں تبدیل کر دیا ہے۔ کشمیر کے اونچے نیچے پہاڑی قصبوں میں پانی کا حصول اہم ہوتا ہے اور اسے قریب یا دور کے چشموں سے حاصل کرنا معمول خیال کیا جاتا تھا۔ بعض اوقات پانی کے چشمے قصبے سے قدرے مسافت پر بھی ہوتے ہیں لیکن یہ مسافت پانی کے حصول میں رکاوٹ نہیں سمجھی جاتی تھی۔ اب پانی کی کمیابی نے اس کام کو اور مشکل بنا دیا ہے۔ اس مقصد کے لیے اب خاندان کے سبھی افراد کو پہلے سے کہیں زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔
غفار راتھر نے یہ بھی بتایا کہ جب پانی کی دستیابی بہت مشکل ہو جاتی ہے تو پھر چھوٹے چھوٹے گڑھوں میں پانی لا کر ذخیرہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پانی کی کمیابی سے متاثرہ علاقہ خاص طور پر پیر پنجال پہاڑی رینج سے کوہِ ہمالیہ کے درمیان کا حصہ خیال کیا جاتا ہے۔ یہ خاصا دشوار گزار بھی ہے۔ یہ علاقہ برسوں سے سالانہ بنیادوں پر ہونے والی متوازن بارش سے لہلہاتا رہتا ہے جب کہ دریا اور گلیشیئر کے پانی سے میدانی علاقے سیراب ہوتے تھے۔ لیکن اب ماحولیاتی تبدیلیوں سے بارانی علاقے بہت زیادہ متاثر ہیں۔
کشمیر یونیورسٹی کے ریسرچر سلطان بھٹ کا کہنا ہے کہ کشیمر کے زیریں حصوں میں فضا میں پانی کے تحلیل ہونے کے عمل میں بہت کمی واقع ہوئی ہے اور یہ بھی موسمیاتی تغیر میں تبدیلی کا باعث ہے۔ ناروے کے ریسرچر اندریاس کاب کی ایک تحقیق سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہو چکی ہے اور اُس میں بھی کشمیری علاقوں میں بڑھتے درجہٴ حرارت اور ہندو کش قراقرم میں گلیشیئر کے حجم میں بتدریج کمی کا بتایا گیا ہے۔ اس مناسبت سے ایک اور ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ کشمیر کے ایک اہم دریا جہلم کو گلیشیئر سے ملنے والے پانی میں بھی کمی کا سامنا ہے۔
کشمیر میں 58 فیصد زرعی رقبہ بارش کا محتاج رہا ہے جبکہ 42 فیصد کو نہروں، اور آبپاشی کے دوسرے ذرائع سے سیراب کیا جاتا ہے۔ اِس طرح اسّی فیصد آبادی کا دار و مدار زراعت پر ہے۔ کشمیری کاشتکار چاول، مکئی، دالیں، زعفران اور آلو کی کاشت میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ایک کشمیری کاشت کار اوسطاً 19 سو ڈالر کماتا ہے۔