کشمیر کے مسئلے پر بھارت اور پاکستان کے حکام کے خفیہ مذاکرات
15 اپریل 2021
مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھارت اور پاکستان کے اعلی انٹیلیجنس حکام کے درمیان جنوری میں دوبئی میں خفیہ مذاکرات ہوئے تھے۔
اشتہار
خبر رساں ایجنسی روئٹرزکے مطابق بھارت اور پاکستان کے درمیان معاملات کا قریبی علم رکھنے والے دہلی کے ایک ذرائع نے اسے بتایا ہے کہ جنوری میں دوبئی میں دونوں ملکوں کی ایک خفیہ میٹنگ ہوئی جس میں دونوں ملکوں کے اعلی انٹیلیجنس حکام شریک تھے۔
جوہری طاقت رکھنے والے دنوں ملکوں کے درمیان سن 2019 سے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں جب کشمیر میں بھارتی فوجی قافلے پر ہونے والے حملے میں چالیس بھارتی فوجی مارے گئے تھے۔ بھارت نے ان حملوں کے لیے پاکستان سے سرگرم دہشت گردوں کو مورد الزام ٹھہرایا تھا اور جوابی کارروائی کرتے ہوئے اپنے جنگی طیاروں کے ذریعہ پاکستانی علاقوں کونشانہ بنایا تھا۔
سن 2019 میں ہی پانچ اگست کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت ختم کردی تھی جس کا مقصد بھارت کے زیر انتظام کشمیر پر گرفت کو مضبوط کرنا ہے۔ اس اقدام کے جواب میں پاکستان نے بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات کی سطح گھٹا دی اور تجارتی تعلقات معطل کر دیے۔
’جموں و کشمير کے انضمام کا ادھورا خواب پورا ہو گيا‘
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمے کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔ اس دوران کئی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ بھارتی سکیورٹی اہلکار اور کشمیری عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپوں میں کئی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Dar Yasin
وادی میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا تھا
ایک سال قبل بھارتی حکومت نے بھارتی زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے وادی میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا تھا۔ کشمیریوں کے پاس یہ خصوصی حیثیت صدراتی حکم کے تحت گزشتہ ستر سالوں سے تھی۔ بھارتی حکومت نے اس فیصلے کے فوری بعد کشمیری رہنماؤں کو ان کے گھروں میں نظر بند کر دیا ور بڑی تعداد میں گرفتاریاں بھی کی گئیں۔
تصویر: AFP/R. Bakshi
احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع
لاک ڈاؤن کے فوری بعد بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین پر شدید کریک ڈاؤن کیا گیا۔ احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھارت کے دیگر علاقوں میں بھی پھیل گیا۔ مودی مخالف جذبات رکھنے والے سرگرم کارکنوں اور شہریوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو واپس بحال کیا جائے۔
تصویر: Imago Images/S. Majeed
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس
اگست 2019ء میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے بھارت کے زیر انتطام کشمیر پر ایک خصوصی اجلاس منعقد کیا جس میں یہ اعلان کیا گیا کہ بھارت کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld
بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سےشہریوں پر مبینہ تشدد
لاک ڈاؤن کے پہلے ماہ ہی برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی جانب سے انکشاف کیا گیا کہ بھارتی افواج کی جانب سے سویلین شہریوں پر تشدد کیا گیا۔ اس رپورٹ میں بی بی سی نے ان مقامی افراد سے گفتگو کی جنہوں نے دعویٰ کیا کہ ان پر بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے شدید تشدد کیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا
ستمبر دو ہزار انیس میں پاکستان، برطانیہ، بھارت اور خود بھارتی زیر انتطام کشمیر میں بھی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ لاک ڈاؤن کے باعث کشمیر کی معیشت بد حالی کا شکار ہونا شروع ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
نیشنل کانفرس کے اراکین کو ان کی قیادت سے ملاقات کی اجازت
گزشتہ برس اکتوبر میں بھارتی حکومت نے نیشنل کانفرس کے اراکین کو ان کی قیادت سے ملاقات کی اجازت دی۔ اسی ماہ پولیس نے جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کی بہن اور بیٹی سمیت کئی خواتین کو احتجاجی مظاہرہ کرنے پر گرفتار کر لیا۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
جموں و کشمير اب دو مختلف خطے بن گئے
اکتیس اکتوبر کو سرکاری طور پر بھارتی وفاقی حکومت کے احکامات لاگو ہوئے اور جموں و کشمير اب دو مختلف خطے بن گئے، ایک جموں و کشمیر اور دوسرا لداخ، جن کے انتظامات اب براہ راست وفاقی حکومت کے ہاتھ میں چلے گئے۔ اس حوالے سے بھارتی وزير داخلہ امت شاہ نے اس پيش رفت پر کہا، ’’جموں و کشمير کے انضمام کا ادھورا خواب آج پورا ہو گيا ہے۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustfa
مقامی معیشت کو تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کے برابر نقصان
نومبر میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق مودی حکومت کی طرف سے اگست 2019ء میں جموں کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے کے اعلان کے بعد صرف کشمیر میں سکیورٹی شٹ ڈاؤن کے نتیجے میں مقامی معیشت کو تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کے برابر نقصان ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/M. Mattoo
انٹرنیٹ اور فون سروسز کو بحال کر دیا گیا
نومبر میں ہی بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع لداخ کے خطہ کرگل میں ایک سو پینتالیس روز کے بعد انٹرنیٹ اور فون سروسز کو بحال کر دیا گیا۔ تاہم وادی کمشیر میں اس پر پابندیاں عائد رہیں۔ دسمبر میں اعلان کیا گیا کہ کشمیر میں موبائل فون کی ٹیکسٹ میسیجنگ سروس بحال کی جائے گی تاہم یہ بحالی بہت محدود تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/X. Galiana
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس
جنوری دو ہزار بیس میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے ایک مرتبہ پھر کشمیر کی صورتحال پر اجلاس بلایا۔ اس موقع پر چین کی جانب سے کہا گیا کہ کشمیر کی قمست کا فیصلہ وہاں کی عوام کو کرنا چاہیے اور چین کشمیریوں کے حق رائے دہی کی حمایت کرتا ہے۔
تصویر: Imago Images/ZUMA Press/F. Khan
پاکستانی وزیر اعظم کا خطاب
رواں سال فروری میں بھارتی زیر انتظام کشمیر میں لاک ڈاؤن کو چھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا۔ پاکستانی وزیر اعظم نے پانچ فروری کو مظفرآباد میں پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا ہی ایک دن کشمیر کی آزادی کا سبب بنے گا۔‘‘
تصویر: AFP/Getty Images
عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت دیگر رہنماؤں کی نظر بندی کا سلسلہ جاری
بھارت کی جانب سے عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت دیگر رہنماؤں کی نظر بندی کا سلسلہ جاری ہے۔ فروری میں ہی امریکی صدر کی جانب سے کشمیر کی صورتحال کا حل نکالنے کے لیے ثالثی کے کردار کی پیش کش کی گئی۔
تصویر: Getty Images/S. Hussain
انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں میں کچھ کمی
اس سال مارچ میں انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں میں کچھ کمی کی جاتی ہے۔ لیکن انٹرنیٹ کی انتہائی سست رفتار کے ساتھ۔
تصویر: Reuters/A.
نئے قوانین کا نفاظ
اپریل میں بھارتی حکومت کی جانب سے نئے قوانین کا نفاظ کیا جاتا ہے۔ نئے قانون کے تحت کوئی بھی شخص جو جموں اور کشمیر میں پندرہ سال تک رہائش پذیر ہوگا وہ کشمیری ڈومیسائل کا اہل بن جائے گا۔
تصویر: AFP/T. Mustafa
بھارتی فوجیوں اور چار کشمیری جنگجوؤں کی ہلاکت
مئی میں بھارتی سکیورٹی فورسز اور کشمیری جنگجوؤں کے درمیان جھڑپ کے نتیجے میں پانچ بھارتی فوجیوں اور چار کشمیری جنگجوؤں کی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua News Agency/J. Dar
’بھارت جمہوریت کے امتحان میں ہار گیا’
اسی سال جولائی میں 'فورم فار ہیومن رائٹس ان جے اینڈ کے‘ نامی انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا تھا کہ کشمیر کئی لحاظ سے بھارتی جمہوریت کے لیے ایک امتحان رہا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت اس امتحان میں بری طرح ناکام ثابت ہوا ہے۔
تصویر: AFP/T. Mustafa
بچے کی موجودگی میں اس کے نانا کی ہلاکت
جولائی میں ہی ایک چھوٹے بچے کی موجودگی میں اس کے نانا کی ہلاکت پر کشمیر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ اس بچے کے نانا سکیورٹی افواج اور عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپ کا مبینہ طور پر نشانہ بن گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
چار اور پانچ اگست کے دوران سخت کرفیو نافذ
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں چار اور پانچ اگست کے دوران سخت کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ گزشتہ برس پانچ اگست کو ہی کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
’یوم استحصال‘
پاکستان کی جانب سے پانچ اگست کو ’یوم استحصال‘ کہا جا رہا ہے۔ آج پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا،’’ کشمیر کا معاملہ ہر فورم پر اٹھاتے رہیں گے۔‘‘ وزیر اعظم پاکستان نے ملک کا ایک نیا ’سیاسی نقشہ‘ منظر عام پر لایا ہے جس میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
19 تصاویر1 | 19
بیک چینل ڈپلومیسی
دونوں ملکوں کی حکومتوں نے تاہم گذشتہ کئی ماہ کے دوران بیک چینل ڈپلومیسی کا آغاز کر دیا ہے اور تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان نے ایک بھارتی مسافر بردار طیارے کو اپنے یہاں ایمرجنسی لینڈنگ کی اجازت دی تھی جبکہ بھارت نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کو سری لنکا جانے کے لیے بھارتی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دی تھی۔ اس کے علاوہ ایک پاکستانی نیزہ باز ٹیم نے گزشتہ ماہ بھارت کا دورہ کیا تھا۔
روئٹرز کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان بیک چینل ڈپلومیسی کے متعلق علم رکھنے والے دو ذرائع کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے تعاون سے جنوری میں دبئی میں ہونے والی بات چیت میں بھارتی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ انالسس ونگ (را) اور پاکستان کے انٹر سروسز انٹلی جنس (آئی ایس آئی) کے اہلکارو ں نے حصہ لیا تھا۔
لیکن بھارتی وزارت خارجہ نے اس سلسلے میں روئٹرز کی جانب سے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اسی طرح پاکستانی فوج کی طر ف سے اب تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
لیکن پاکستانی دفاعی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ پاکستانی اور بھارتی عہدیدار کسی تیسرے ملک میں پچھلے کئی ماہ سے ایک دوسرے سے ملاقات کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا”اس حوالے سے اعلی عہدیداروں کے درمیان تھائی لینڈ، دوبئی اور لندن میں ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔"
پاک بھارت کشيدگی کی مختصر تاريخ
04:32
ماضی میں بھی ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں
روئٹرز کے مطابق ماضی میں بھی دونوں ملکوں کے درمیان ایسی ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں، بالخصوص بحرانی صورت حال کے دوران، تاہم عوامی طورپر ان ملاقاتوں کا کبھی اعتراف نہیں کیا گیا۔
ایسی ملاقات کی تصدیق کرنے والے دہلی کے ایک ذرائع کا کہنا تھا”اب بھی بہت کچھ غلط ہوسکتا ہے، ایسا کئی بار ہوا ہے، اس لیے کوئی عوامی طورپر اس کی بات نہیں کر رہا۔ ہم اس کا کوئی نام بھی نہیں دے سکتے۔ یہ امن مساعی بھی نہیں ہے۔ آپ اسے دوبارہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کہہ سکتے ہے۔"
دونوں ملکوں کے لیے باہمی تعلقات بحال کرنے کے وجوہات بھی ہیں۔ بھارت گزشتہ برس سے چین کے ساتھ سرحدی تنازعے میں الجھا ہوا ہے اور وہ پاکستان کے ساتھ ایک نیا فوجی محاذ کھولنا نہیں چاہتا ہے۔
دوسری طرف چین کا حلیف پاکستان اقتصادی دشواریوں میں پھنسا ہوا ہے اور مالی مشکلات سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف کے بیل آوٹ پیکج پر منحصر ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا وہ کشمیر کی سرحد پر طویل مدت تک کشیدگی کو برداشت کرسکے گا جبکہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے بعد وہ اپنی مغربی سرحد کو بھی مستحکم رکھنا چاہتا ہے۔
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
10 تصاویر1 | 10
روئٹرز کی سابق صحافی اور پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے محاذ پر جنگ کے موضوع پر حال ہی میں کتاب لکھنے والی مائرہ میک ڈونلڈ کا کہنا ہے”پاکستان اور بھارت کے لیے مذاکرات کرنا بات چیت نا کرنے سے بہتر ہے اوریہ زیادہ بہتر ہے کہ یہ خفیہ طور پر کیا جائے اور اسے پبلسٹی سے دور رکھا جائے۔"
مائرہ میک ڈونلڈ کہتی ہیں ”میں اسے کشیدگی میں بنیادی کمی کے علاوہ کچھ زیادہ نہیں سمجھتی کیونکہ دونوں ملک اس وقت مشکلات سے دو چار ہیں۔ پاکستان کو افغانستان سے امریکی انخلا کا سامنا کرنا ہو گا جبکہ بھارت کو چین کے ساتھ تنازعے کا سامنا ہے۔"
اشتہار
بیان بازی میں کمی
روئٹرز کے مطابق جنوری میں دبئی میٹنگ کے بعد ہی بھارت اور پاکستان نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کا اعلان کیا تھا جس پر اب تک عمل جاری ہے۔
دونوں ملکوں نے اپنے اپنے زیر انتظام کشمیر میں رواں سال انتخابات کروانے کا بھی اعلان کیا ہے تاکہ دہائیوں سے خونریزی کا شکار اس علاقے کی صورت حال کو معمول پر لایا جا سکے۔
روئٹرز سے بات کرنے والے ذرائع کے مطابق دونوں ملکوں نے روایتی بیان بازی میں کمی لانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
اس کے تحت پاکستان اگست 2019 میں کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی پر کیے جانے والے اعتراض کو ختم کر دے گا جبکہ بھارت اپنے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے تشدد کا الزام پاکستان پر عائد کرنے سے باز رہے گا۔
یہ تفصیلات اس سے پہلے سامنے نہیں آئی ہیں۔ بھارت کشمیر میں شورش کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیتا ہے لیکن پاکستان اس الزام کی تردید کرتا ہے۔
لداخ میں بھارتی فوج کی بھاری تعیناتی، لوگوں میں پریشانی
02:52
This browser does not support the video element.
روئٹرز سے بات کرنے والے ایک ذرائع کا کہنا تھا''دونوں ملکوں کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ کشمیر میں اندر سے حملے ہو سکتے ہیں اور اس پر بات بھی ہوئی ہے کہ ان سے کیسے نمٹا جائے اور ایسے کسی حملے کو ان کوششوں کی راہ میں حائل نہ ہونے دیا جائے۔"
خبر رساں ایجنسی روئٹرز سے بات کرنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ گوکہ 74 سالہ پرانے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کا ابھی تک کوئی منصوبہ سامنے نہیں آ سکا ہے لیکن دونوں ممالک تعلقات کو بحال کرنے کے لیے کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی رؤف حسن کا روئٹرز سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا 'پاکستان جیوا سٹریٹجک سے جیو اکنامک دور میں داخل ہو رہا ہے۔ اس کے لیے اندرونی طور پر اور اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن ایک کلیدی جز ہے۔"