کشمیر: 500 مظاہرے اور سینکڑوں افراد زخمی ہوئے، حکومتی ذرائع
28 اگست 2019
بھارتی حکومتی ذرائع کے مطابق کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے اب تک بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پانچ سو سے زائد مظاہرے ہو چکے ہیں۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوششوں کے دوران سیکنڑوں کشمیری زخمی بھی ہوئے۔
اشتہار
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے بھارتی حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے حوالے سے بتایا ہے کہ جموں و کشمیر میں مکمل لاک ڈاؤن کے باوجود گزشتہ تین ہفتوں کے دوران بھارت مخالف احتجاج اور سکیورٹی اہلکاروں پر سنگ باری کے پانچ سو سے زائد واقعات پیش آئے۔
بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دیے جانے کے خلاف سری نگر سمیت دیگر شہروں اور قصبوں میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ اپنا نام مخفی رکھتے ہوئے اس حکومتی اہلکار نے اے ایف پی کو یہ بھی بتایا کہ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں نے آنسو گیس اور پیلٹ گن کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں ایک سو سے زائد کشمیری شہری زخمی ہوئے۔
مظاہرین کی جانب سے سکیورٹی اہلکاروں پر پتھراؤ کے نتیجے میں پولیس کے تین سو جب کہ پیرا ملٹری فورسز کے سو اہلکار زخمی بھی ہوئے۔
اس اعلیٰ حکومتی اہلکار نے اے ایف سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، '' حالات معمول پر لانے کے لیے ہمہ وقت اور تمام ممکن اقدامات کیے گئے ہیں لیکن فی الوقت کچھ بھی کام نہیں کر رہا۔ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں پریشانی پھیل رہی ہے۔‘‘
وزیر اعظم مودی کی ہندو قوم پرست حکومت نے پانچ اگست کو جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے سے قبل ہزاروں سکیورٹی اہلکار ریاست میں تعینات کر دیے تھے۔ خطے میں پہلے ہی پانچ لاکھ سے زائد سکیورٹی اہلکار موجود ہیں۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں رابطوں کے ذرائع منقطع اور مکمل لاک ڈاؤن تین ہفتوں سے جاری ہے۔ حکام نے چند روز قبل اسکول کھولنے کا اعلان کیا تھا لیکن سری نگر میں موجود اے ایف پی کے نمائندے کے مطابق شہری اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیج رہے۔
اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے ایک دوسرے حکومتی اہلکار نے بھی اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سکیورٹی اہلکاروں نے تاجروں، سماجی کارکنوں اور سیاسی رہنماؤں سمیت چار ہزار سے زائد کشمیریوں کو حراست میں لے رکھا ہے۔ اس اہلکار کے مطابق مظاہروں میں شرکت کرنے والے 1350 افراد کو بھی سکیورٹی اہلکاروں پر پتھراؤ کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔
ش ح / ا ا (اے ایف پی)
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔