کلاؤس اوئلر، پاکستانی دارالحکومت کے واحد جرمن نانبائی
23 فروری 2021
کلاؤس اوئلر کا تعلق جرمن شہر ڈسلڈورف کے نواح میں میئربُش سے ہے۔ وہ گزشتہ کئی برسوں سے پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کے واحد جرمن نانبائی ہیں۔ ربع صدی سے پاکستان میں مقیم کلاؤس اوئلر اقوام متحدہ کے مشیر بھی رہ چکے ہیں۔
تصویر: Arne Immanuel Bänsch/dpa/picture alliance
اشتہار
کلاؤس اوئلر کے لیے سب کچھ ان کی سوئٹزرلینڈ کے سفارت خانے میں ملازمت کے ساتھ شروع ہوا تھا۔ پھر وہ اقوام متحدہ کے مشیر کے طور پر بھی کام کرتے رہے اور 2005ء میں جب شمالی پاکستان میں بہت تباہ کن زلزلہ آیا تھا، تو انہوں نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر متاثرین کی مدد اور بحالی کے منصوبوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔
پاکستان کا پہلا سفر بیالیس برس قبل
اس جرمن باشندے کی عمر اس وقت 65 برس ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی میں جنوبی ایشیائی ممالک کے کئی سیاحتی دورے کیے اور پہلی مرتبہ وہ 1979ء میں پاکستان گئے تھے۔ کلاؤس اوئلر کے الفاظ میں، ''اس خطے نے مجھے اپنی دلکشی کی وجہ سے ہمیشہ ہی اپنی طرف کھینچا ہے، جس کا سبب اس کی کثیرالجہتی ثقافت کی مقناطیسیت ہے۔‘‘
تقریباﹰ 20 برس قبل ایک پاکستانی خاتون سے شادی کر لینے والے کلاؤس اوئلر کہتے ہیں، ''پاکستان میں لوگوں کا رویہ بہت ہی خیر مقدمی اور معاونت والا ہوتا ہے۔ آپ اس بہت خوبصورت ملک کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں، آپ کو پاکستانی باشندے انتہائی مہمان نواز ہی ملیں گے۔‘‘
کلاؤس اوئلر تقریباﹰ آٹھ برسوں سے اپنی بیکری چلاتے ہیں اور اپنی مصنوعات اسلام آباد کی ایک مشہور ہفتہ وار مارکیٹ میں بیچتے ہیںتصویر: Arne Immanuel Bänsch/dpa/picture alliance
نانبائی کے کام کا آغاز آٹھ سال پہلے
ڈسلڈورف جرمنی کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کا دارالحکومت ہے اور کلاؤس اوئلر کی شخصیت ایک مخصوص رائن لینڈر جرمن کی ہے۔ گزشتہ تقریباﹰ آٹھ برسوں سے وہ اپنی ایک بیکری بھی چلاتے ہیں اور اپنی مصنوعات اسلام آباد کی ایک مشہور ہفتہ وار مارکیٹ میں بیچتے ہیں۔
ان کی بیکری مصنوعات خاص جرمن طریقے سے تیار کی جاتی ہیں، جو اسلام آباد میں ان کے مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر ملکی گاہکوں میں بھی اتنی ہی مقبول ہیں، جتنی انہیں مقامی پاکستانی باشندے پسند کرتے ہیں۔
'ماکس اُنڈ مورِٹس‘ سے نسبت کی وجہ
شروع میں کلاؤس اوئلر کا خیال تھا کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد یہ بیکری چلائیں گے، لیکن انہوں نے جو کام محض ضمنی طور پر شروع کیا، وہ اتنا کامیاب رہا کہ اب ان کی بیکری 'ماکس اُنڈ مورِٹس جرمن بیکری‘ اسلام آباد میں ایک کافی جانا پہچانا نام بن چکا ہے۔
کلاؤس اوئلر اپنی مصنوعات کے لیے زیادہ تر اجزائے ترکیبی اور اجناس اپنے گھر کی چھت پر بنائے گئے باغیچے میں اگاتے ہیںتصویر: Arne Immanuel Bänsch/dpa/picture alliance
'ماکس اُنڈ مورِٹس‘ یا 'ماکس اور مورِٹس‘ بچوں کے لیے لکھے جانے والے جرمن ادب کی ایک معروف کہانی ہے۔ یہ کہانی وِلہَیلم بُش نامی جرمن مصنف نے تقریباﹰ ڈیڑھ سو سال سے بھی زیادہ عرصہ قبل لکھی تھی۔ وِلہَیلم بُش کلاؤس اوئلر کے پڑدادا کے بھائی تھے۔ اسی لیے انہوں نے اس نام سے اپنی خاندانی نسبت اور اس کہانی کے کرداروں سے متاثر ہو کر اپنی بیکری کا یہ نام رکھا تھا۔
اشتہار
اجزائے ترکیبی مقامی لیکن ترکیب جرمن
کلاؤس اوئلر اپنی بیکری مصنوعات صرف اتنی ہی تیار کرتے ہیں، جتنی لازمی طور پر فروخت ہو جائیں۔ یہ سوچ بھی جرمن نانبائیوں کی مخصوص ذہنیت کا حصہ ہے۔ پیداوار اتنی ہی ہونا چاہیے، جتنی ہاتھوں ہاتھ بک جائے تاکہ گاہکوں کو ہر مرتبہ صرف تازہ مصنوعات ہی ملیں، جو اسی روز تیار کی گئی ہوں۔
وہ اپنی مصنوعات کے لیے زیادہ تر اجزائے ترکیبی اور اجناس اپنے گھر کی چھت پر بنائے گئے باغیچے میں اگاتے ہیں۔ اوئلر چند مقامی تاجروں سے اس طرح کاروباری تعاون بھی کرتے ہیں کہ وہ خود اپنے گھر پر تیار کردہ کئی طرح کا وہ پنیر چند مقامی کاروباری اداروں کو بیچ دیتے ہیں، جو دوسری صورت میں پاکستان میں مقامی طور پر تازہ تو کبھی دستیاب ہو ہی نہیں سکتا۔
جرمنی کے وفاقی دفتر خارجہ کی معاونت سے لاہور میں ورلڈز آف کلچر (ثقافتوں کی دنیائیں) کے عنوان سے ایک تصویری نمائش کا اہتمام کیا گیا۔ پاکستان میں ثقافتی ورثے کو محفوظ بنانے کے لیے جرمنی گزشتہ چار دہائیوں سے کام کر رہا ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
ثقافتوں کی دنیائیں
اس نمائش میں جرمنی کے تعاون سے ثقافتی ورثے کو محفوظ بنانے کے پروگرام کے تحت مکمل کیے جانے والے پندرہ منصوبوں کی تفصیلات پیش کی گئیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
شاہی قلعے میں تصاویری نمائش
نمائش کا اہتمام لاہور کے تاریخی شاہی قلعے میں کیا گیا۔ جرمنی کی مدد سے والڈ سٹی لاہور اتھارٹی نے اس شاہی قلعے میں موجود ایک تصویری دیوارکو کامیابی کے ساتھ اصلی شکل میں بحال کرکے محفوظ بنایا ہے۔ شاہی قلعے کی یہ دیوار مغلیہ دور کے تعمیراتی کارکنوں کی غیر معمولی مہارت اور ہنر مندی کی عکاس ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
ثقافتی ورثہ قوموں کی شناخت کا لازمی جزو
اس نمائش کا افتتاح پاکستان میں جرمنی کے سفیر بیرنہارڈ شِلاگ ہیک نے کیا۔ اس موقعے پر ان کا کہنا تھا کہ ثقافتی ورثہ قوموں کی شناخت کا لازمی حصہ ہوتا ہے اس لیے ثقافتی ورثے کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ یاد رہے انیس سو اسی کی دہائی کے آغاز سے لے کر اب تک جرمنی پاکستان میں ثقافتی ورثے کو محفوظ بنانے کے لیے تقریباﹰ ایک ملین یورو خرچ کر چکا ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
ثقافتی مکالمہ
جرمنی کے سفیر نے شرکاء کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ تاریخی عمارتوں کی بحالی کے حوالے سے جرمنی کی مہارت کو دوسرے ملکوں کے ساتھ بانٹنے سے نہ صرف شراکت داری کا جزبہ پروان چڑھتا ہے بلکہ ثقافتی مکالمے کو بھی فروغ ملتا ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
جرمنی پاکستان میں ثقافتی ورثے کو محفوظ بنانے میں پیش پیش
اس نمائش کے شرکاء کو بتایا گیا کہ جرمنی کے وفاقی محکمے نے انیس سو اکیاسی میں ثقافتی اہمیت کی حامل عمارات کو محفوظ بنانے کے ایک پروگرام کا آغاز کیا تھا۔ اس کا مقصد ثقافتی ورثے کو محفوظ بنانا، ثقافتی تنوع کو فروغ دینا اور لوگوں کو ان کی قومی شناخت کے حوالے سے مزید آگاہی فراہم کرنا تھا۔
تصویر: DW/T. Shahzad
افتتاحی قریب میں طلبہ و طالبات کی شرکت
اس نمائش میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد موجود تھے۔ افتتاحی تقریب میں آرٹس اورثقافت سے دلچسپی رکھنے والے افراد کے علاوہ فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات بھی شریک ہوئے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
جرمن سفیر کو لاہور سے متعلق ایک کتاب پیش کی گئی
پاکستان میں جرمنی کے سفیر کو لاہور شہر سے متعلق لکھی گئی ایک کتاب بھی پیش کی گئی۔ ان کو والڈ سٹی لاہور کی اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل کامران لاشاری کی طرف سے تہنیتی تحائف بھی پیش کیے گئے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
نمائش کی تشہیر
شاہی قلعے کی سیر کو آنے والے سیاحوں کی بڑی تعداد نے اس نمائش میں دلچسپی لی۔ اس نمائش کی تشہیر کے لیے شاہی قلعے کے مختلف حصوں میں تعارفی اسٹینڈیز بھی نصب کیے گئے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
لاہور کے تاریخی گھروں کی بحالی
جرمنی نے اندرون شہر کے علاقے گلی سرجان سنگھ میں بارہ تاریخی گھروں کی بحالی اور ان کی خوبصورتی کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ بنانے کے لیے بھی معاونت فراہم کی تھی۔ اس منصوبے کو دوہزار چودہ میں یونیسکو ایشیا پیسفل ایوارڈ برائے ثقافتی بحالی بھی دیا گیا تھا۔
تصویر: DW/T. Shahzad
9 تصاویر1 | 9
معیار آمدنی سے زیادہ اہم
کلاؤس اوئلر کہتے ہیں کہ ان کے لیے پاکستان میں جرمنی کی بیکری مصنوعات کی روایت متعارف کرانا زیادہ اہم تھا اور آمدنی سے کہیں زیادہ اہم تھا ان کی تیار کردہ مصنوعات کا معیار۔
یہ 65 سالہ جرمن شہری اب تک اپنے کاروبار میں اتنے کامیاب ہو چکے ہیں کہ اب وہ اپنی تیار کردہ بیکری مصنوعات اسلام آباد کے سفارتی علاقے میں بھی فروخت کرتے ہیں۔
وطن کی کشش
کلاؤس اوئلر نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا کہ وہ اپنی زندگی میں بہت سے متنوع کام کر چکے ہیں اور طرح طرح کی کامیابیاں بھی حاصل کر چکے ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ''کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال بھی آتا ہے کہ کسی روز میں واپس جرمنی چلا جاؤں، میئربُش میں، جہاں میری جڑیں ہیں۔ اس لیے کہ میرے لیے اب کسی کو بھی کچھ کر کے دکھانے کی، خود کو ثابت کرنے کی نا کوئی اہمیت رہی ہے اور نا ہی ضرورت۔‘‘
م م / ا ا (ڈی پی اے)
خوراک میں ملاوٹ کے حیران کن اسکینڈل
آسٹریلیا میں اسٹرابری میں سے سوئیاں نکلنے پر دنیا ششدر ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں خوراک میں ملاوٹ کے کئی اسکینڈل ماضی میں بھی سامنے آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/STR
ستمبر سن 2018: آسٹریلین اسٹرابری میں سوئیاں
آسٹریلوی حکومت نے ملک بھر میں مختلف اسٹرابری کے ڈبوں میں سوئیوں کی موجودگی کی فوجداری تفتیش شروع کر دی ہے۔ سوئیوں والے اسٹرابری آسٹریلیا کی سات ریاستوں کے چھ اضلاع میں عام صارفين کے ليے دستیاب تھیں۔ سوئی والی ایک اسٹرابری کھانے کے سبب ایک شخص کو ہسپتال بھی لے جايا جا چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/A. Laule
جنوری سن 2018: جرمنی ڈبل روٹی میں پنیں
رواں برس آسٹریلیا کے لوگوں کو اسٹرابری احتیاط سے کھانے کی تلقین کی گئی ہے تو جرمن لوگ بھی ڈبل روٹی کھانے میں احتیاط برتے آئے ہيں ۔ جنوری ميں جنوب مغربی جرمن شہر اوفنبیرگ کے ایک روز مرہ کی اشیاء کے اسٹور میں ڈبل روٹی کے علاوہ خوراک کی کئی دوسری اشیاء میں سے پنیں ملی تھیں۔
تصویر: picture-alliance
جرمنی: بچوں کی زہریلی خوراک اور بھتہ خوری
جرمن والدین میں سن 2017 میں اُس وقت خوف و ہراس پھیل گیا جب ماہِ ستمبر میں فریڈرش ہوفن شہر میں بچوں کی خوراک کے ایک جار میں سے زہریلا مواد ملا تھا۔ اس کے استعمال سے ایک بچے کی موت بھی واقع ہوئی۔ ایک پچپن سالہ شہری نے دھمکی دی کہ اگر اسے دس ملین یورو نہ دیے گئے تو مزید زہریلے مادے والے جار مارکیٹ ميں بھيج دیے جائیں گے۔ اس شخص کو گرفتار کر لیا گیا اور اُس نے زہر ملانے کے جرم کا اعتراف بھی کیا تھا۔
تصویر: picture alliance/Keystone/J. Zick
پاکستان: زہریلی مٹھائی سے دو درجن س زائد ہلاکتیں
سن 2016 میں پاکستانی صوبے پنجاب میں زہریلے لڈو کھانے سے کم از کم تیس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ مٹھائی میں زہر ملانے کا واقعہ دانستہ تھا۔ مٹھائی فروش کے بھائی نے ایک معمولی تلخ کلامی کے بعد لڈو تیار کرنے کے مواد میں زہر ملا دیا تھا۔ اس شخص کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ان زہریلے لڈوؤں کے کھانے سے ستر سے زائد افراد کو موت و حیات میں مبتلا رہنا پڑا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/STR
اٹلی: مضر پانی کی بوتلیں
سن 2003 میں اٹلی میں مضر پانی کی بوتلوں کی دستیابی کے بعد شدید عدم بےچینی پائی گئی۔ ان بوتلوں میں بلیچنگ پاؤڈر کا محلول اور ایسیٹون کے مادے ٹیکا لگانے والی سرنجوں سے منتقل کیے گئے تھے۔ پولیس نے ماحول دوستوں اور بنیاد پرست عناصر پر ایسا کرنے کا شبہ ظاہر کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Zennaro
امریکا: ٹائیلینول سے قتل
سن 1982 میں امریکی شہر شکاگو میں ایسے سات افراد ہلاک ہو گئے تھے، جنہوں نے درد سے نجات کی ایسی گولیاں کھائی تھیں جن میں سنکھیے زہر کے اجزاء موجود تھے۔ یہ معاملہ ابھی تک حل طلب ہے اور اس باعث کوئی بھی مشتبہ شخص حراست میں نہیں لیا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد دوا ساز کمپنیوں سے مطالبہ بھی کیا گیا کہ وہ ایسی پیکنگ بنائے جن میں گولیاں ہر ممکن طریقے سے محفوظ رہ سکیں۔