کلائمیٹ چینج اب موضوع کے طور پر ویڈیو گیمز میں بھی
9 مئی 2021
حال ہی میں مارکیٹ میں آنے والی ویڈیو گیمز میں کلائمیٹ چینج کے موضوع کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ ایک گیم کا مرکزی کردار ایک سائنسدان ہے، جو مغربی بحر الکاہل کے پوشیدہ اسرار تلاش کرنے کی کوشش میں ہوتا ہے۔
اشتہار
یہ ویڈیو گیم برطانوی نشریاتی ادارے کے پروگرام 'بلیو پلینٹ‘ یا 'نیلا سیارہ‘ سے متاثر ہو کر تخلیق کی گئی ہے۔ اس میں خاتوں سائنسدان میرائی نامی ایک کردار ہے جو ایک محفوظ رکھنے والا لباس پہن کر سمندری کی گہرائی میں سفر پر روانہ ہوتی ہے۔ اس ویڈیو گیم میں پروگرام 'نیلا سیارہ‘ کی فوٹیج بھی استعمال کی گئی ہے۔
اس مہماتی ویڈیو گیم میں خاتون سائنس دان میرائی سمندری حیاتیات اور سمندر شناسی جیسے علوم کی ماہر ہے۔ اس گیم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اس کو کھیلنے والے سمندروں کے بیرونی اور داخلی زمینی ماحول کی حساسیت اور اہمیت سے آگاہ ہو سکیں۔ اس گیمر کو کھیلنے والے کسی بھی فرد کو اس کے ذریعے زیر سمندر دنیا کے بارے میں وسیع تر معلومات حاصل ہو جاتی ہیں۔
گیم کے تخلیق کار
یہ گیم ایک امریکی ڈیجیٹل ادارے ای لائن کی پیشکش ہے۔ اس ادارے کے شریک بانی ایلن گریشن فیلڈ ہیں۔ گریشن فیلڈ کا اس گیم کے حوالے سے کہنا ہے کہ وہ ماحول دوستی کی ترغیب دینے والا ایک مضبوط کردار تخلیق کرنے کی خواہش رکھتے تھے اور میرائی کے کردار میں یہ خوبی موجود ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ جس قدر افراد اس ویڈیو گیم کا حصہ بنیں گے، اتنی ہی سمندر اور اس کے ماحول کے بارے میں آگہی بڑھے گی۔ گریشن فیلڈ نے اس گیم کو سمندروں کے تحفظ کی جانب ایک بڑا قدم بھی قرار دیا۔
یہ امر اہم ہے کہ کئی ویڈیو گیمز میں زمین کے قدرتی ماحول اور لینڈ اسکیپ کو دکھایا گیا ہے۔ اب اس مناسبت سے جو تبدیلی سامنے آنے لگی ہے، وہ ماحولیاتی مسائل کی نشاندہی ہے۔ ایک گیم 'بی سیمیولیٹر‘ میں کھلاڑی اسکرین پر شہد کی مکھی میں بدل جاتے ہیں اور انہیں اپنی آبادی میں کمی کا شدید مسئلے کا سامنا ہوتا ہے۔ اس گیم میں کھیلتے ہوئے آگے بڑھنے کے لیے درختوں کو تباہی سے بچانا لازمی ہوتا ہے۔
اسی طرح ایک اور ویڈیو گیم میں کھیلنے والوں کو زمین کی کم ہوتی ہوئی ہریالی کے مسئلے کا سامنا ہوتا ہے۔ ایک اور گیم 'سمز‘ میں ماحول دوست لائف اسٹائل اپنانے پر زور دیا گیا ہے۔ یہ گیم سن 2000 میں مارکیٹ میں لائی گئی تھی۔ اس میں پینے کے صاف پانی کی اہمیت اور ری سائیکلنگ کی ضرورت پر توجہ دی گئی ہے۔
پلاسٹک کی ماحولیاتی آلودگی کا بھیانک چہرہ
خوبصورت سمندری ساحل اب پلاسٹک کی بوتلوں اور تھیلوں کے ساتھ ساتھ اِن سے مرے پرندوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ ساحل دوسرے کچرے سے بھی اٹی ہوئی ہیں۔ پلاسٹک سے انسانی محبت کی قیمت بھی اب انسانوں کو چکانی پڑ رہی ہے۔
تصویر: Daniel Müller/Greenpeace
پلاسٹک کی عمر
پلاسٹک ایک ہلکا پھلکا اور تادیر رہنے والا مادہ ہے۔ سن 1950 میں ابتدائی پروڈکشن کے بعد سے اسے آٹھ بلین میٹرک ٹن سے زائد یہ پیدا کیا جا چکا ہے۔ یہ مسلسل ری سائیکل بھی کیا جا رہا ہے۔ اس کا مادی انحطاط ممکن نہیں اور اس کے نابود نہ ہونے نے انسانی زندگی میں انتہائی زیادہ مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ کچرے کے ڈھیر سے ری سائیکل کے لیے پلاسٹک ضرور اکھٹا کیا جاتا ہے لیکن بہت سارا سمندر تک پھر بھی پہنچ جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Mukoya
پلاسٹک کے دریا
دنیا بھر میں نوے فیصد پلاسٹک کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک دریا پہنچاتے ہیں۔ ان میں دنیا کے دس بڑے دریا شامل ہیں۔ ان کے نام ہیں، یانگژی، زرد، سندھ، ہائی، نیل، گنگا، پرل، آمو، نائیجر اور میکانگ۔ یہ دریا انتہائی گنجان شہروں کے قریب سے گزرتے ہیں اور اپنے ساتھ کچرا بھی بہا کر لے جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/G. B. Dantes
پرندوں نے بھی پلاسٹک کا استعمال شروع کر دیا
کئی پرندوں کے لیے دریاؤں، سمندروں اور جنگلوں میں پائے جانے والے کاٹھ کباڑ میں پلاسٹک کو اپنے لیے مفید بھی جانا ہے۔ ڈنمارک کی کوپن ہاگن جھیل میں یہ پرندہ پلاسٹک کو اپنے گھونسلے میں استعمال کیے ہوئے ہے۔ ریسرچر کے مطابق انسانوں کی طرح پرندوں کے لیے بھی پلاسٹک انتہائی غیرمفید ہے۔
تصویر: picture-alliance/Ritzau Scanpix
پلاسٹک استعمال کرنے کے خطرناک نتائج
پلاسٹک کے مکمل طور پر نابود ہونے کا عرصہ بہت طویل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی موجودگی ماحولیات کے لیے تباہ کن اثرات کی حامل ہے۔ دنیا بھر میں پچاس فیصد پلاسٹک کوڑے دانوں میں پھینک دیا جاتا ہے جو انجام کار ماحولیاتی آلودگی کا باعث بن رہا ہے۔ اس کے غیرضروری استعمال کی وجہ سے سمندری حیات و نباتات پر تباہ کن اثرات مرتب ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/Balance
پلاسٹک خوراک کا حصہ بن چکا ہے
جانور پلاسٹک کو خوراک سمجھ کر کھانے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی جان کو داؤ پر لگا دیتا ہے۔ ریسرچ کے مطابق یورپ، روس، آئس لینڈ اور دیگر ممالک کے کئی جزائر پر چونتیس فیصد سمندری حیات کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔ مجموعی طور پر چوہتر فیصد پلاسٹک قابل ہضم نہیں ہوتا۔ اس سے انسانی بدن میں بھی جانے سے اندرونی اجزاء کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
پلاسٹک نے انسانوں اور پرندوں کے ساتھ ساتھ سمندر کی عظیم الجثہ مخلوق کو بھی ہلاک کرنے سے گریز نہیں کیا۔ تھائی نہر میں ایک ایسی وہیل مچھلی پائی گئی تھی، جس کو سانس لینے میں شدید دشواری تھی کیونکہ اُس کے گلے میں پلاسٹک کا بیگ پھنسا ہوا تھا۔ علاج کے دوران وہیل کے اندر سے پانچ پلاسٹک کے تھیلے نکلے تھے۔ یہ وہیل بعد میں جانبر نہیں ہو سکی تھی۔ اس وہیل کا معدہ اسی فیصد پلاسٹک کچرے سے بھرا ہوا تھا۔
تصویر: Reuters
پلاسٹک کی دیکھی اور ان دیکھی صورتیں
انسانی زندگی میں پلاسٹک کی مختلف صورتیں ہیں۔ ان میں بعض ہمارے سامنے ہیں اور بعض مختلف اشیا میں ملفوف ہوتی ہیں۔ سمندر میں انتہائی باریک پلاسٹک کے ذرات تیرتے پھرتے ہیں اور یہ بھی سمندری حیات کے لیے شدید نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔ ان ذرات نے مچھلیوں اور سمندری پرندوں کی افزائش پر شدید منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/NOAA Pacific Islands Fisheries Science Center
پلاسٹک سے نجات کی صورت دکھائی نہیں دے رہی
انسانوں کو پلاسٹک کے استعمال سے کیونکر نجات مل سکتی ہے۔ ماحول دوست پلاسٹک کی طویل ری سائیکلنگ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایک دفعہ ری سائیکل ہونے والے پلاسٹک کے استعمال کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ یورپی یونین نے اس حوالے سے مثبت قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے اور ایک دفعہ ری سائیکل ہونے والے پلاسٹک پر پابندی کا امکان ہے۔
تصویر: Daniel Müller/Greenpeace
8 تصاویر1 | 8
اس گیم کی تخلیق کار الینڈا چینگ کا کہنا ہے کہ اس گیم کو کھیلنے والے پر ماحولیاتی آلودگی کے اثرات یقینی طور پر مرتب ہوں گے اور انہیں ان پیچیدہ عوامل سے آگاہی حاصل ہو گی۔ اس گیم کا نام 'پلیئنگ نیچر‘ ہے۔