کلود مونے کی پینٹنگ کی ریکارڈ 111 ملین ڈالر میں نیلامی
15 مئی 2019
نیو یارک میں فرانسیسی مصور کلود مونے کی ’ہے سٹیکس‘ سیریز کی ایک پینٹنگ 110.7 ڈالر میں نیلام ہوئی جو ایک نیا عالمی ریکارڈ ہے۔ اس پینٹنگ کے سابقہ مالک نے سن 1986 میں اسے ڈھائی ملین ڈالر میں خریدا تھا۔
اشتہار
ایک امریکی نیلام گھر سودَبیز میں مونے کی یہ پینٹنگ نیلامی کے لیے رکھی گئی تو اس کے لیے سات افراد نے بولی لگانا شروع کی اور محض آٹھ منٹ ہی میں یہ فن پارہ ریکارڈ 110.7 ملین امریکی ڈالر میں خرید لیا گیا۔
سو ملین سے زائد کی قیمت کے عوض فروخت ہونے والی یہ پہلی پینٹنگ ہے۔ معروف فرانسیسی مصور کلود مونے اپنی لینڈ اسکیپ پینٹنگز کے باعث شہرت رکھتے ہیں اور ان کی اس شہرہ آفاق پینٹنگ کا عنوان ’میولے‘ ہے۔
کلود مونے کو رنگوں، روشنیوں اور سایوں کے منفرد استعمال کا ماہر کہا جاتا ہے اور ان کی مذکورہ پینٹنگ ’ہے سٹیکس‘ سلسلے کی اٹھارہ پینٹنگز میں سے ایک ہے۔ اس پینٹنگ کو سن 1890 میں مکمل کیا گیا تھا۔
رواں صدی کے دوران ان میں سے چار پینٹنگز کی نیلامی کی جائے گی اور ان چار میں سے گزشتہ روز نیلامی کے لیے رکھی گئی پینٹنگ وہ واحد شاہکار ہے، جو نجی ملکیت میں تھا۔ دیگر سترہ فن پارے نیو یارک کے میٹروپولیٹن میوزیم اور شکاگو کے آرٹ انسٹیٹیوٹ کے پاس ہیں۔
اس نیلام گھر کے مطابق اس پینٹنگ کو بیچنے والے شخص نے اسے سن 1986 میں محض 2.53 ملین ڈالر میں خریدا تھا۔ اس سے قبل یہ پینٹنگ قریب ایک صدی تک ایک ہی خاندان کی ملکیت میں تھی، جس نے اسے 1890 کی دہائی میں مونے کے ڈیلر سے براہ راست خریدا تھا۔
کلود مونے کی اس پینٹنگ کے موجودہ خریدار کے بارے میں سودَبیز نے کوئی معلومات جاری نہیں کیں۔
ش ح / م م (اے پی، ڈی پی اے)
گم شُدہ فن پارے ’لاسٹ آرٹ‘ کی وَیب سائٹ پر
انٹرنیٹ پلیٹ فارم lostart.de پر فنی شاہکاروں کے تاجر ہِلڈے برانڈ گُرلٹ کے اُس ذخیرے میں سے مزید فن پارے دیکھے جا سکتے ہیں، جو اُس کے بیٹے کورنیلئس گُرلٹ کے اپارٹمنٹ سے ملے اور ضبط کیے جا چکے ہیں۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
آنری ماتِیس کی ’بیٹھی ہوئی عورت‘
انٹرنیٹ پلیٹ فارم lostart.de پر جو مزید فن پارے دیکھے جا سکتے ہیں، اُن میں فنی شاہکاروں کے تاجر ہِلڈے برانڈ گُرلٹ کے بیٹے کورنیلئس گُرلٹ کے گھر سے ملنے والی آنری ماتِیس کی بنائی ہوئی پینٹنگ ’بیٹھی ہوئی عورت‘ بھی شامل ہے۔ اس خدشے کے پیشِ نظر کہ یہ نیشنل سوشلسٹ دور میں لُوٹے گئے فن پارے ہیں، حکام نے فروری 2012ء میں انہیں اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
مارک شاگال کی پینٹنگ ’تمثیلی منظر‘
کورنیلئس گُرلٹ کے ذخیرے میں سے مشہور فرانسیسی مصور مارک شاگال (1887ء تا 1985ء) کی پینٹنگ ’تمثیلی منظر‘ بھی ملی ہے۔ بیس ویں صدی کے اہم ترین مصورں میں شمار ہونے والے اظہاریت پسند مصور شاگال روسی نژاد یہودی تھے اور اُنہیں ’مصورں کی صف میں موجود شاعر‘ کہا جاتا تھا۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
ولہیلم لاخنیٹ کی ’میز پر بیٹھی لڑکی‘
جرمن مصور ولہیلم لاخنیٹ (1899ء تا 1962ء) نے زیادہ تر شہر ڈریسڈن میں کام کیا۔ اُنہوں نے اپنے فن پاروں کے ذریعے جزوی طور پر نیشنل سوشلزم کی کھلی مخالفت کی۔ 1933ء میں اُنہیں گرفتار کر لیا گیا اور اُن کے چند فن پاروں کو ’بگڑا ہوا آرٹ‘ قرار دے کر ضبط کر لیا گیا۔ فروری 1945ء میں ڈریسڈن پر فضائی بمباری کے نتیجے میں اُن کے زیادہ تر شاہکار تباہ ہو گئے۔ اب اُن میں سے چند ایک پھر سے منظر عام پر آئے ہیں۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
آٹو گریبل کی ’نقاب میں‘
جرمن مصور آٹو گریبل (1895 تا 1972ء) کی تخلیقات کو جرمنی میں آرٹ کی تحریک ’نیو آبجیکٹیویٹی‘ یا ’نئی معروضیت‘ کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد وہ KPD (کمیونسٹ پارٹی آف جرمنی) کے رکن بنے، بعد میں ڈریسڈن میں ’رَیڈ گروپ‘ کے بانی ارکان میں سے ایک تھے۔ 1933ء میں اُنہیں بھی گرفتار کر لیا گیا اور اُن کے فن پاروں کو کمیونسٹ آرٹ قرار دے کر رَد کر دیا گیا۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
ایرش فراس کی ’ماں اور بچہ‘
مصور ایرش فراس جرمن مصوروں کی ’لاپتہ نسل‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔ نیشنل سوشلسٹ پروپیگنڈا نے اُن کی فنی سرگرمیوں کو بھی بڑے پیمانے پر محدود بنا دیا تھا۔ وہ ڈریسڈن کے فنکاروں کی ایک تنظیم کی مجلس عاملہ میں شامل تھے۔ اس تنظیم کو نیشنل سوشلسٹ حکومت نے تحلیل کر دیا تھا اور اُنہیں فنکار کے تشخص سے محروم کر دیا تھا۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
لُڈوِک گوڈن شویگ کی ’مردانہ چہرہ‘
جرمن مجسمہ ساز لُڈوِک گوڈن شویگ اَیچنگز بنانے کے بھی ماہر تھے۔ اُن کی بنائی ہوئی اس گرافک تصویر کے ساتھ ساتھ ایک زنانہ تصویر بھی گُرلِٹ کے ذخیرے سے ملی ہے۔ امکان غالب ہے کہ یہ دونوں تصاویر بھی ’لوٹی ہوئی تصاویر‘ میں سے ہیں۔ ان تصاویر کے سابقہ مالکان کے ورثاء انہیں واپس مانگنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
فرِٹس ماسکوس کی ’سوچتی ہوئی عورت‘
جرمن مجسمہ ساز فرِٹس ماسکوس (1896ء تا 1967ء) کے بارے میں زیادہ معلومات عام نہیں ہیں۔ ماسکوس کو ایک متنازعہ فنکار تصور کیا جاتا ہے۔ اُن کا ایک فن پارہ 1938ء میں برلن میں ’بگڑے ہوئے آرٹ‘ کی ایک نمائش میں دکھایا گیا تھا۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
ایڈورڈ مُنش کی ’شام، مالیخولیا وَن‘
ناروے کے اظہاریت پسند مصور ایڈرڈ مُنش کے کئی فن پارے گُرلِٹ کے ذخیرے میں سے برآمد ہوئے ہیں۔ یہ وہی مصور ہیں، جن کا مشہور ترین شاہکار ’چیخ‘ 2004ء میں اوسلو کے مُنش میوزیم سے چرا لیا گیا تھا لیکن 2006ء میں مل گیا تھا۔ اُن کے اس گرافک شاہکار پر درج ہے کہ یہ 1896ء میں تخلیق ہوا تھا۔