کمبوڈیا: خمیر روژ کا اعلی عہدیدار اپنےکئے پر رو دیا
26 فروری 2008ڈوک، جو کاونگ گیک اے او کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اجتماعی قبروں کو دیکھ کر رو پڑا اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگا۔ڈوک کے ہمراہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے مقرر کردہ 80 جج ، وکلاءاور تفتیش کار تھے۔
اس موقع پر ایک پولیس افسر نے صحافیوں کو بتایاکہ اس نے ڈوک کو ان درختوں کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوا دیکھا جہاں خمیر روژ کے سپاہی چھوٹے بچوں کو موت کے گھاٹ اتارتے تھے۔ ڈوک نے رو رو کر مدفون افراد سے معافی مانگی ۔
مدفون افراد میں زیادہ تر وہ تھے جن پر خمیر روژ نے الزام عائد کیا تھا کہ وہ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے لیے کام کرتے تھے اور خمیر روژ کے خلاف کمبوڈیا میں کاروائیوں کے زمہ دار تھے۔ ان افراد کی تعداد چودہ ہزار بتائی جاتی ہے۔ ان افراد کو پہلے جیلوں میں ڈالا جاتا تھا اور بد ترین تشدد کے بعد اعتراف ِجرم کر وا کے موت کی وادی میں دھکیل دیا جاتا تھا۔ صرف چند خوش قسمت ہی زندہ بچ سکے۔
ان میں سے ایک بچ جانے والے کا کہنا ہے کہ وہ اب تک نہیں جان پایا کہ ڈوک نے اس کی بیوی اور بچے کو کیوں قتل کر وایا۔
ڈوک کو انیس سو نناوے میں گرفتار کیا گیا۔ وہ اب ایک عیسائی ہے اور امکان ہے کہ وہ خمیر روژ کے صدر کھو سیم پھین اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف مقدمات میں عینی شاہد کا کر دار ادا کرے گا۔
خمیر روژ بیسویں صدی کی سفّاک ترین حکومتوں میں سے ایک تھی۔ خمیر روژ خود کو کمیونسٹ نظریات کا حامی کہلواتی تھی مگر اس کے بیشتر نظریات اور اقدامات کمیونزم سے براہ راست متصادم تھے جیسے کہ مزدوروں کے بجائے کسانوں کو پرولتاریا کا درجہ دینا۔ خمیر روژ کے زیر انتظام مشترکہ کھیتوں پر کسانوں سے جبری مشقت بھی لی جاتی تھی۔ چار برس کی اس بربریت سے بھر پور حکومت کو انیس سو اناسی میں ویتنامی فوج نے اقتدار چھوڑنے اور جنگلوں میں روپوش ہونے پر مجبور کر دیا۔
سابق خمیر روژ حکمرانوں کا مقدمہ اب اقوامِ متحدہ کے پاس ہے جس کا مشن دنیا بھر میں نسل کشی کے خلاف غیر جانبدار کاروائی کرنا بتایا جاتا ہے۔