کمبوڈیا میں بچوں سے جنسی زیادتی کے بڑھتے واقعات
10 ستمبر 2013
جب وہ کافی دیر تک واپس نہیں لوٹی تو اس کے گھر والوں نے اس کی تلاش شروع کی اور کچھ دیر بعد انہیں اس کی لاش پڑوس والے گھر کے قریب سے ملی۔ سو لنڈا کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اس کے ساتھ زیادتی کی گئی اور اس کے چھوٹے چھوٹے سونے کے کانٹے جن کی قیمت بمشکل 30 ڈالر ہو گی، اس کے کانوں سے نوچ لیے گئے تھے۔
کمبوڈیا کی پولیس اور مقامی تنظیم ’ایڈہاک‘ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے پہلے سات ماہ میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے 116 کیسز رپورٹ ہوئے۔ ان میں سے 71 بچوں کی عمریں 10 سے 18 برس کے درمیان تھیں، 32 بچوں کی عمریں پانچ سے 10 برس کے درمیان تھیں جبکہ 13 بچے پانچ سال سے بھی کم عمر کے تھے۔ یہ صرف وہ واقعات ہیں جو رپورٹ کیے گئے۔
ڈیوڈ ہارڈنگ ایک سابق سماجی کارکن ہیں اور کمبوڈیا کے نوجوانوں کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کے مشیر ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’یہ تعداد انتہائی پریشان کن ہے اور یقیناﹰ اس میں اضافہ ہو رہا ہے‘‘۔
پولیس اس سب کی وجہ منشیات، شراب اور غیر اخلاقی مواد کو قرار دیتی ہے جبکہ سماجی کارکنان کے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ عدل کی غیر موجودگی، کرپشن اور ملزمان کا سزا سے بے خوف ہونا ہے۔
سابقہ وزیر برائے خواتین مو سوچوا خواتین کے حقوق کے لیے کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’’یہ بچیاں چاول کے کھیتوں میں مویشیوں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے بڑے ہوتی ہیں اور انہیں والدین کی توجہ بالکل نہیں مل پاتی‘‘۔
اقوام متحدہ کی رواں برس جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق ایک چوتھائی کمبوڈین مرد اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے کم از کم ایک مرتبہ کسی کے ساتھ زیادتی ضرور کی ہوتی ہے اور ان میں سے زیادہ تر 15 برس کے ہونے سے بھی قبل جنسی زیادتی کر چکے ہوتے ہیں۔
ڈیوڈ ہارڈنگ کا کہنا ہے کہ اگر کسی ملک میں بچوں کے ساتھ زیادتی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اسے ملک بھر کے میڈیا میں کوریج دی جاتی ہے لیکن کمبوڈیا میں صورتحال مختلف ہے۔ یہاں کا معاشرہ کہتا ہے، ’’کیا ہوا اگر زیادتی ہو بھی ہو گئی۔ وہ ایک بچہ ہے۔ یہاں ایک بچے کی اہمیت اتنی نہیں ہے جتنی ایک بالغ کی ہے‘‘۔
خواتین اور بچوں کے لیے کام کرنے والی ایک این جی او کی قانونی مشیر لے وشوتا کا اس حوالے سے کہنا ہے، ’’مرد سمجھتے ہیں کہ نابالغ بچیوں کے ساتھ زیادتی کرنے سے وہ جنسی طور پر مزید مضبوط ہوتے ہیں‘‘۔
نو سالہ سو لنڈا کے ساتھ زیادتی کرنے والے مجرم کو گرفتار توکر لیا گیا اور اس وقت مقدمہ بھی جاری ہے لیکن جلد نتائج سامنے آنے کے امکانات بہت کم ہیں۔