کمزور ہوتے ہوئے عالمی معاشی نظام کو سہارا کون دے گا؟
24 مئی 2016عالمی معیشت میں مرکزی کردار ادا کرنے والے جی سیون گروپ کا سالانہ اجلاس جاپان میں ہونے جا رہا ہے۔ چین کی معاشی سست روی، تیل کی گرتی ہوئی قیمتیں اور یورپی یونین سے برطانیہ کا ممکنہ اخراج اس اجلاس کے مرکزی موضوعات ہوں گے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ سبھی مسائل بہت بڑے ہیں اور یہ سات صنعتی ممالک تنہا انہیں حل نہیں کر سکتے۔
اس کے علاوہ کئی دیگر مسائل بھی ان سات عالمی رہنماؤں کے انتظار میں ہیں۔ دنیا میں جاری دہشت گردانہ کارروائیاں، مشرق وسطیٰ کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور یورپ میں مہاجرین کا بحران بھی عالمی معیشت سے جڑا ہوا ہے۔
اس کے علاوہ اس اجلاس میں شریک ممالک کے اپنے مسائل بھی ہیں اور عالمی مسائل کے حل کے لیے ان کے اپنے حل بھی۔ یہ عالمی لیڈر ٹوکیو سے تین سو کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع اسیشیما کے مقام پر جمع ہوں گے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ان سات بڑے صنعتی ممالک کے مابین اختلافات موجود ہیں اور عالمی معیشت میں جان پھونکھنے سے متعلق ہر ملک کا ایک اپنا منصوبہ ہے۔ جاپانی منصوبے کے مطابق عالمی معیشت میں بہتری کے لیے اخراجات میں اضافہ کیا جانا چاہیے جبکہ جرمنی کا کہنا ہے کہ ملکی قرضوں میں کمی ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ایک متفقہ لائحہ عمل کا سامنے آنا مشکل ہے۔
اسٹریٹیجک اور بین الاقوامی اسٹڈیز سینٹر میں ایشیائی معاشیات کے سینئر مشیر میتھیو گڈمین کا کہنا ہے، ’’حقیقت یہ ہے کہ عالمی معیشت کمزور، غیر مساوی اور غیر مستحکم ہے۔ یہ واقعی ایک حقیقی مسئلہ بن چکا ہے کہ عالمی معیشت میں کس طرح نمو کا سلسلہ جاری رکھا جائے؟‘‘
آئندہ ویک اینڈ پر جی سیون اور مرکزی بینکوں کے سربراہان اس بات پر متفق ہو سکتے ہیں کہ ہر قوم کو اپنا مفاد سامنے رکھتے ہوئے اپنی سطح پر اقدامات کرنا ہوں گے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اس اجلاس میں سب سے آسان ہدف جیوپولیٹیکل سیاسی مسائل پر اتفاق کرنا ہوگا یعنی داعش کے خلاف کارروائیاں تیز کرنے پر اتفاق کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ ہفتے ان ممالک کے وزرائے خزانہ نے اس بات پر بھی اتفاق کیا تھا کہ انتہاپسندوں کی معالی معاونت فراہم کرنے والے نیٹ ورکس کے خلاف کارروائیاں کی جائیں گی۔
جی سیون گروپ میں امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، اٹلی، کینیڈا اور جاپان شامل ہیں۔ پہلے اس گروپ کا نام جی ایٹ ہوتا تھا لیکن سن دو ہزار چودہ میں روس کے خلاف پابندیاں عائد کرتے ہوئے اسے اس گروپ سے نکال دیا گیا تھا۔