کمسن بیوی کے ساتھ جنسی تعلق ’ریپ‘ شمار ہے، بھارتی سپریم کورٹ
صائمہ حیدر
11 اکتوبر 2017
بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا ہے کہ نابالغ لڑکی کے ساتھ جنسی تعلق استوار کرنے کو بھی ریپ کے برابر جرم ہی قرار دیا جائے گا خواہ ایسا شادی کی صورت ہی میں کیوں نہ ہو۔ بھارت میں لڑکیوں کی شادی کی قانونی عمر اٹھارہ برس ہے۔
اشتہار
انڈیا کی عدالت عظمیٰ کے اس حکم کے ساتھ ہی اُس قانونی جھول کو ختم کر دیا گیا ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض مجرم سزا سے بچ جایا کرتے تھے۔ انڈیا میں لڑکیوں کی شادی کے لیے مقرر کردہ قانونی عمر اٹھارہ سال ہے لیکن اس عمر سے کہیں کم عمر کی لاکھوں بچیوں کی شادیاں کر دی جاتی ہیں۔ ایسا عموماﹰ بھارت کے پسماندہ دیہی علاقوں میں ہوتا ہے۔
اس سے قبل بھارت میں جنسی زیادتی کے قوانین میں شادی شدہ جوڑوں کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ یعنی اگر ایک کم عمر لڑکی کے ساتھ اُس کی مرضی کے بغیر جسمانی تعلق قائم کیا جاتا تو اسے شادی کے بندھن میں رہتے ہوئے جنسی زیادتی تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔ تاہم اب اعلیٰ ترین بھارتی عدلت کا کہنا ہے کہ یہ انڈیا میں فریقین کی رضامندی کے سخت قوانین سے متنازعہ عمل ہے۔
عدالتی حکم کے مطابق مستقبل میں پولیس کو یہ اختیار دیا جائے گا کہ وہ ایسے مقدمات کو سنے جن میں زیادتی کی شکار لڑکی کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہو اور وہ زیادتی ہونے کے ایک سال کے اندر شکایت بھی درج کرا دے۔
اس معاملے پر سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرانے والے وکیل وکرم شری واستو نے عدالتی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس سے لڑکیوں کو تحفظ حاصل ہو گا۔
شادی کے بعد بغیر رضامندی کے جنسی تعلق قائم کرنے کو ’ریپ‘ قرار دینے سے متعلق کئی مقدمات پہلے ہی بھارت کی مختلف ریاستوں کئی فوجداری عدالتوں میں سماعت کے منتظر ہیں۔
بھارت کے امراء میں بھی کم عمری کی شادیوں کا رواج
بھارت میں ہر سال لاکھوں لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر دی جاتی ہے۔ غیر قانونی ہونے کے باوجود لڑکیوں کی نصف آبادی کو بچپنے میں ہی شادی کے بندھن میں باندھ دیا جاتا ہے۔
تصویر: AP
برا تصور نہیں کیا جاتا
سماجی مبصرین کی رائے میں بھارتی معاشرے میں کم عمری کی شادی کو برا تصور نہیں کیا جاتا اور قانونی طور پر جرم کے زمرے میں آنے والے اس فعل کو کم ہی رپورٹ کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/S. Andrade
حکومتی پالیسی ناکام
غیر سرکاری تنظیم ’ایکشن ایڈ انڈیا‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق کم عمری کی شادیوں سے متعلق حکومت کی پالیسی ملک میں چھوٹی عمر میں شادیوں کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ قانونی اقدامات بھارتی معاشرے میں ایسی ثقاتی روایات کے اثرات کو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے جو کم عمری کی شادیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
تصویر: AP
لڑکوں کی تعداد لڑکیوں سے کم
تھامسن روئٹرز فاؤندیشن کی رپورٹ کے مطابق لڑکوں کی شادی بھی چھوٹی عمر میں کرنے کے واقعات عام ہیں لیکن ان کی تعداد لڑکیوں سے کافی کم ہے۔ اٹھارہ سال سے کم عمر میں لڑکی کی شادی کر دینے کا مطلب ہے کہ اسے اسکول چھوڑنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ ایسی لڑکیوں کو گھریلو تشدد، جنسی استحصال اور بچے کو جنم دیتے ہوئے موت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
بھارت کے امراء میں بھی کم عمر کی شادیاں عام
اگرچہ بھارت میں تعلیم کے فقدان اور غربت کو کم عمری کی شادیوں کی وجہ بتایا جاتا ہے لیکن امیر گھرانوں میں بھی چھوٹی عمر میں لڑکیوں کی شادیوں کا رواج عام ہے۔ بھارت کے دیہی علاقوں میں ہر چار میں سے ایک لڑکی اور شہروں میں ہر پانچ میں سے ایک لڑکی کی اٹھارہ سال سے کم عمر میں شادی کر دی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
کم عمر کی شادیوں کو روکنے کے لیے اقدامات
’’ایکشن ایڈ انڈیا‘ کی رپورٹ کے مطابق حکومت کو سوشل میڈیا، اسکولوں کے نصاب اور دیگر ذرائع کے ذریعے کم عمر کی شادی کے بھارتی قانون اور اس سے پیدا پونے والے سماجی مسائل کے بارے میں آگاہی پھیلانی چاہیے۔ اس کے علاوہ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو یہ قانونی حق دیا جائے کہ وہ کم عمر بچوں کی شادیوں کو روک سکیں۔
تصویر: AP
کچھ سرکاری اقدامات سے فائدہ
حال ہی میں کچھ سرکاری اقدامات سے فائدہ حاصل ہوا ہے۔ حکومت ایسی لڑکی کے اکاؤنٹ میں کچھ پیسے منتقل کرتی ہے جو اٹھارہ سال کی عمر میں تعلیم حاصل کر رہی ہو اور اس کی شادی نہ ہوئی ہو۔ راجھستان میں شادیوں کے ٹینٹ فراہم کرنے والی کمپنی نے بھی کم عمری کی درجنوں شادیوں کو رکوایا ہے۔