کمسن خود کش بمباروں کی ’فیکٹریاں‘
27 جنوری 2015پتہ چلا ہے کہ تربیت مکمل ہونے کے بعد شدت پسند ان خودکش حملہ آوروں کو پاکستان کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ممالک افغانستان اور ایران میں بھی اپنے اہداف پر حملوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ شدت پسندوں کے ان خفیہ کیمپوں سے تربیت پانےوالے درجنوں خودکش حملہ آوروں کو مختلف اہداف پر حملوں کے لیے استعمال کیا جا چکا ہے، جن کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہو چکےہیں ۔
ڈی ڈبلیو کے ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ شورش زدہ صوبے بلوچستان کےجنوب مغربی اور شمال مشرقی علاقوں پشین کچلاک، کلی سیگی، کلی لمڑان، یارو، ہرنائی زیارت، قلعہ سیف اللہ، ژوب، توبہ اچکزئی، نوشکی، مستونگ، چاغی اور تفتان میں مختلف مقامات پر شت پسندوں کے 11 خفیہ کیمپ قائم ہیں، جہاں کمسن لڑکوں کو بڑے پیمانے پر خود کش حملوں اور دیگر تخریبی کارروائیوں کے لیے تربیت دی جا رہی ہے۔
اغوا کیے گئے لڑکوں کی برین واشنگ
ان زیر تربیت لڑکوں میں ایسے لڑکے بھی شامل ہیں، جنہیں مختلف علاقوں میں اغوا کے بعد ان کیمپوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ کمسن لڑکوں کو خودکش حملوں کی تربیت شدت پسندوں کے تین مختلف گروپ فراہم کر رہے ہیں، جن میں سے ایک گروپ کا تعلق افغان طالبان سے، ایک گروپ کا تعلق کالعدم پاکستانی تحریک طالبان کی جماعت الاحرار سے اور ایک گروپ کا تعلق ایران میں سرگرم عمل جیش العدل نامی شدت پسند تنظیم سے ہے۔
ضلع پشین کے کلی لمڑان میں شدت پسندوں کے دو خفیہ کمپاونڈز ہیں، جہاں پہلے مرحلے میں زیر تربیت کمسن لڑکوں کی برین واشنگ کی جاتی ہے اور بعد میں انہیں خودکش حملوں کی تربیت کے لیےکلی سیگی اور کلی گانگلزئی جو کہ کلی نیو پہاڑ خان کے نام سے مشہور ہے، منتقل کر دیا جاتا ہے۔
ذرائع کے مطابق فضل نامی شدت پسند کمانڈرکلی نیو پہاڑ خان میں زیر تربیت لڑکوں کوخودکش جیکٹیں اور دیگر تخریبی مواد فراہم کرتا ہے اور بعد میں ان تربیت پانے والے لڑکوں کو افغانستان اور شمالی وزیرستان مننتقل کر دیا جاتا ہے۔
پشین کے نواحی علاقے کلی لمڑان کے دو کمسن لڑکوں عبدالقدیر اور نعمت اللہ کو بھی اسی کیمپ میں خود کش حملوں کے لیے تیار کیا گیا تھا اوران دونوں لڑکوں کو شمالی وزیرستان کے علاقے وانا میں دو خودکش حملوں میں استعمال کیا گیا۔
خوش قسمت محمد حنیف کی رہائی
کلی کربلا کے ایک رہائشی عظمت اللہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے ایک رشتہ دار محمد حنیف، جس کی عمر 19 سال ہے، کو بھی انہی شدت پسندوں نے خود کش حملے کی تربیت کے لیے اپنے کیمپ منتقل کیا تھا تاہم قبائلی عمائدین کی مداخلت پر اسے بعد میں ورثاء کے حوالے کر دیا گیا۔ ان کے بقول ’میرا رشتہ دار محمد حنیف مقامی اسکول میں زیر تعلیم تھا۔ شدت پسندوں نے برین واشنگ کے بعد اسے پشین کے نواح میں قائم ایک کیمپ میں منتقل کیا تھا۔ اس علاقے میں زین نامی شدت پسند کمانڈر کے حامیوں نے اسے خودکش حملے کے لیے تربیت فراہم کرنے کی کوشش کی اور وہ کئی دنوں تک لاپتہ رہا۔ تاہم بعد میں جب ہمیں اس کا علم ہوا تو ہمارے قبائلی عمائدین نے ان شدت پسندوں سے رابطہ کیا اور ان کی مداخلت کی وجہ سے حنیف کو رہا کر دیا گیا‘۔
شمالی بلوچستان کے علاقے کچلاک کلی سیگی، کلی حبیب زئی، قلعہ عبداللہ اور توبہ اچکزئی میں بھی مختلف مقامات پر شدت پسندوں کے خفیہ تربیتی مراکزقائم ہیں۔ ان تربیتی مراکز میں خود کش حملہ آوروں کے ساتھ ساتھ دیگر عسکریت پسندوں کو گوریلا جنگ کی تربیت بھی فراہم کی جاتی ہے اور یہاں سے تیار ہونے والے جنگجوؤں کو افغانستان اور وزیرستان بھیجا جاتا ہے۔
پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ مولانا محمد خان شیرانی پر پشین کے علاقے کلی کربلا میں چند سال قبل انہی شدت پسندوں کے ہاتھوں تربیت پانے والے ایک خود کش حملہ آور نے حملہ کیا تھا، جس میں مولانا شیرانی تو محفوظ رہے تاہم دیگر 6 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
تربیتی مراکز کے خلاف بڑا آپریشن جاری
ایک اعلیٰ حکومتی اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بلوچستان میں شدت پسندوں کی سرگرمیوں میں غیر معمولی طور پر اضافہ ہوا ہے اور آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے کے بعد شدت پسندوں کے خلاف وزیرستان کے بعد سب سے زیادہ کارروائی بلوچستان میں عمل میں لائی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا:’’کالعدم تحریک طالبان اور دیگر شدت پسند تنظیموں کے آپس میں قریبی رابطے ہیں اور اعلیٰ سطح پر سب کا ہدف ایک ہی ہے۔ اس لیے یہ تمام تنظیمیں منظم انداز میں کام کر رہی ہیں۔ بلوچستان میں شدت پسندوں کے خلاف گزشتہ چند یوم کے دوران بڑے پیمانے پر کارروائی کی گئی ہے، جس کے دوران دو درجن سے زائد عسکریت پسند ہلاک ہو چکے ہیں۔ حکومت عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی تسلسل کے ساتھ بڑھا رہی ہے اور یہ کوشش بھی کی جا رہی ہے کہ شہری علاقوں میں قائم شدت پسندوں کے کیمپوں کے خلاف کارروائی کے حوالےسے مقامی آبادی کو بھی اعتماد میں لیا جائے تاکہ کارروائی کے دوران عام لوگوں کو نقصان نہ پہنچ سکے۔‘‘
بلوچستان کے بلوچ اکژیتی اضلاع نوشکی،چاغی اور دالبندین میں بھی شدت پسندوں کے 3 تربیتی کیمپ قائم ہیں، جہاں کمسن لڑکوں کو خود کش حملوں کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ تربیت کے بعد ان لڑکوں کومتعلقہ اہداف پر بھیج دیا جاتا ہے۔ یہاں سے خودکش حملوں کی تربیت پانے والے اکثر خودکش حملہ آوروں کو بلوچستان سے ملحقہ افغانستان کے سرحدی ضلع شوراوک کے راستے افغانستان کے دیگر علاقوں میں بھیجا جاتا ہے۔
بلوچ قوم پرستوں کی حمایت سے فعال مراکز
ذرائع کے مطابق دالبندین کے علاقے گردی جنگل اور چاغی میں بھی شدت پسندوں کی ایک بڑی تعداد بد امنی کی کارروائیوں کے لیے خفیہ تربیت حاصل کر رہی ہے۔ ان شدت پسندوں کو بلوچستان میں آزادی کی جنگ لڑنے والی بعض کالعدم تنظیموں کی حمایت بھی حاصل ہے۔
ادھر دوسری جانب ایران سے ملحقہ بلوچستان کے سرحدی علاقے تفتان، پنجگور اور قریبی علاقوں میں بھی شدت پسندوں کے تربیتی کیمپ موجود ہیں، جہاں سے خود کش حملہ آوروں کو تربیت کے بعد جیش العدل نامی تنظیم اپنے اہداف پر حملوں کے لیے ایرانی بلوچستان منتقل کر دیتی ہے۔
بلوچستان میں شدت پسندوں کے قائم تربیتی کیمپوں کے حوالے سے حکومتی موقف جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے حکومت بلوچستان کے ترجمان جان محمد بلیدی اور سیکرٹری داخلہ اکبر حسین درانی سے رابطے کی بھی کوشش کی مگر وہ اس حوالے سے دستیاب نہ ہو سکے۔