کمسن ملازمہ کے ساتھ ناروا سلوک، مکمل تحقیقات کا حکم
5 جنوری 2017اس کیس نے پاکستان میں گھریلو ملازموں کے ساتھ برتاؤ پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ اس بچی کی زخمی حالت میں اُتری ہوئی تصاویر کو لوگوں نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا۔ کئی ٹی وی پروگرامز بھی اس موضوع پر کیے گئے۔ عوامی دباؤ اور میڈیا کے نتیجے میں یہ کیس جب اعلیٰ حکام کی نظروں میں آیا تو پتہ چلا کہ جس جج کے گھر یہ ملازمہ کام کر رہی تھی، اس نے لڑکی کے والد کے ساتھ راضی نامہ کر لیا ہے اور والد نے اس جج اور اُس کی اہلیہ کو معاف کر دیا ہے۔
اس خبر کے بعد پاکستان میں انسانی حقوق کی کئی تنظیموں اور سول سوسائٹی کے اراکین نے اس بات پر شدید تنقید کی کہ کیوں اس بچی کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو معاف کر دیا گیا ہے۔ نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق گزشتہ روز پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سو موٹو ایکشن لیتے ہوئے پولیس کو ہدایت دی کہ وہ اس بچی پر تشدد کی مکمل انکوائری کرے۔
پاکستانی صحافی عفت رضوی سپریم کورٹ کے کیسسز کے بارے میں رپورٹنگ کرتی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کوبتایا، ’’طیبہ کا کیس اس لیے منظر عام پر آ گیا کیونکہ وہ جس گھر میں کام کر رہی تھی، وہ ایک جج کا تھا، مگر ہمارے معاشرے میں بچوں کے ننھے ہاتھوں سے مزدوری کرانے کی ریت ختم تو کیا کم بھی نہیں ہوئی۔ گاؤں کے زمیندار سے لے کر شہری میڈم تک اکثریت پسند کرتی ہے کہ ان کے گھر ایک کُل وقتی بچہ یا بچی بطور ملازم موجود رہے، یہ بچے نہ تو گھر والوں کی پرائیویسی میں حائل ہوتے ہیں، نہ ہی ان سے چوری کا ڈر رہتا ہے۔‘‘
پاکستان میں غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کا دکانوں اور گھروں میں کام کرنا ایک عام سی بات ہے اور ان پر تشدد کے بھی کئی واقعات منظر عام پر آ چکے ہیں۔ پاکستان کے ہیومن رائٹس کمیشن کی سربراہ زہرہ یوسف نے اے پی کو بتایا، ’’میں چیف جسٹس کی جانب سے اس کیس پر سو موٹو لینے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ وہ اسے ایک ٹیسٹ کیس بنائیں گے۔‘‘ اس کیس کے نگران پولیس افسر خالد محمود نے اے پی کو بتایا، ’’جج کی اہلیہ سے پوچھ گچھ کی گئی تھی، اب مزید تحقیقات کی جا رہی ہیں۔‘‘
عفت رضوی کہتی ہیں کہ اب سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لے لیا ہے، اس لیے امید کی جا سکتی ہے کہ بچی پر تشدد میں ملوث جج کے اہل خانہ کو سزا ملے گی، ساتھ ہی عدالت ان عناصر کو بھی کٹہرے میں لائے گی، جنہوں نے بر وقت ایکشن لینے کی بجائے بچی اور جج صاحب کے اہل خانہ کے درمیان متنازعہ معافی نامہ قبول کیا۔