کمسن ملازمین پر تشدد کا سبب، معاشرتی رویے یا ریاستی غفلت؟
صائمہ حیدر
13 جولائی 2017
ایک خاتون ایم پی اے کی صاحبزادی کے گھریلو ملازم پر مبینہ تشدد کے نتیجے میں ہلاکت کے بعد انسانی حقوق کے کارکنان کی طرف سے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ پاکستان میں چائلڈ ڈومیسٹک لیبر کے حوالے سے کیا قانون سازی کی گئی ہے۔
اشتہار
پاکستان ميں مقامی میڈیا کے مطابق لاہور کے اکبری منڈی نامی علاقے میں ایک خاتون رکن صوبائی اسمبلی شاہ جہاں کی بیٹی فوزيہ کی جانب سے اُن کے گھریلو ملازم اختر علی پر تشدد کا الزام ہے جس کے باعث اختر علی کی ہلاکت ہوئی۔ تاہم اُن کی صاحبزادی فوزیہ نے ضمانت قبل از گرفتاری لے رکھی ہے۔
فوزیہ کے خلاف پولیس میں ایف آئی آر اختر علی کی بہن عطیہ نے درج کرائی ہے۔ پاکستان کے مقامی اخبارات اور ٹی وی چینلز نے اس مقدمے پر آج ہونے والی عدالتی کارروائی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ملزمہ فوزیہ کو قبل از گرفتاری ضمانت دے دی گئی ہے اور اب مقدمے کی آئندہ سماعت بیس جولائی کو ہو گی۔
دوسری جانب میڈیا ہی کی اطلاعات کے مطابق مبینہ طور پر قتل کيے جانے والے کمسن اختر علی کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں تصدیق کی گئی ہے کہ اُس پر تشدد ہوا تھا۔
پاکستان میں آئے دن گھریلو ملازمین کے ساتھ ناروا سلوک کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ گزشتہ سال دسمبر میں بھی ایک بچی طیبہ پر ایک جج کی بیوی کے مبینہ تشدد کا واقعہ سامنے آیا جس پر پاکستانی سپریم کورٹ نے سو موٹو ایکشن بھی لیا اور یہ مقدمہ ابھی زیر سماعت ہے۔
ایسے واقعات کسی معاشرے میں کیوں جنم لیتے ہیں؟ پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے سر گرم کارکن طاہرہ عبداللہ نے ڈوئچے ویلے سے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم کا بد سلوکی اور تشدد کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ یہ انسان کی فطرت ہوتی ہے۔
طاہرہ عبداللہ نے کہا کہ بچوں اور بچیوں کے محنت اور مزدوری کرنے کے خلاف نہ صرف پاکستان میں قوانین موجود ہیں بلکہ پاکستان کے قیام سے پہلے برطانوی راج میں بھی ایسے قوانین موجود تھے۔ طاہرہ عبداللہ کے مطابق ، ’’سن 2013 سے سن 2016 تک چاروں صوبوں نے چائلڈ لیبر کے حوالے سے قوانین کو زیادہ مضبوط کیا۔ لیکن دوسری جانب یہ امر قابل افسوس ہے کہ اس میں وہ بچے شامل نہیں جنہیں اُن کے ماں باپ دوسروں کے گھروں میں کام کے لیے بھیجتے ہیں ۔ یعنی چائلڈ ڈومیسٹک لیبر کو ملکی قوانین میں خاطر خواہ جگہ نہیں دی گئی۔‘‘
طاہرہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ کم سن گھریلو ملازمین کے ساتھ بد سلوکی میں نہ صرف اُن کے والدین کی غفلت شامل ہے بلکہ ریاست بھی اپنا کردار درست طور پر ادا نہیں کر رہی۔
سماجی کارکن طاہرہ عبداللہ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں مزید کہا کہ بچوں کی محنت مشقت کے لیے غربت کو بہانہ بنانا درست نہیں۔ بچوں کو تعلیم اور تحفظ مہیا کرنا اور اُن کی بہبود کے لیے قانون سازی کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
چند سکوں کے عوض بکتی معصومیت
عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں 168 ملین بچے کان کنی، کارخانوں اور زرعی صنعت میں انتہائی سخت اور نامساعد حالات میں مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
سالانہ یاد دہانی
اقوام متحدہ ہر سال بارہ جون کو چائلد لیبر کے خلاف عالمی دن مناتا ہے۔ اس کا مقصد دنیا بھر میں 168 ملین بچوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی طرف دھیان مبذول کرانا ہے۔ عالمی ادارہ محنت کے رکن ممالک نے 1999ء میں ایک کنوینشن منظور کیا تھا، جس میں چائلڈ لیبر کی انتہائی بری اقسام کی شدید مذمت کی گئی تھی۔ اس کنوینشن کے تحت اٹھارہ سال سے کم عمر کا ہر فرد بچہ تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: imago/Michael Westermann
بھارت میں تیار کیے گئے تولیہ
بھارتی ریاست تامل ناڈو کی اس فیکٹری میں بچے تولیے تیار کرتے ہیں۔ آئی ایل او کے تخمینوں کے مطابق دنیا کی سب سے بڑے اس جمہوری ملک میں 78 ملین بچوں سے ناجائز مزدوری کا کام لیا جاتا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں پانچ سے سترہ برس کی عمر کے بچوں کی دس فیصد تعداد باقاعدہ بنیادوں پر چائلد لیبر کرتی ہے۔
تصویر: imago/imagebroker
ایک دن کی مزدوری کےعوض صرف 80 سینٹ
لکھنے پڑھنے اور اسکول جانے کے بجائے یہ بچے اینٹیں بناتے ہیں۔ شدید غربت کی وجہ سے بہت سے بچے چائلڈ لیبر پر مجبور کیے جاتے ہیں۔ بھارت میں بھی بچوں کی ایک بڑی تعداد اپنے کبنے کی کفالت کے لیے اپنا پچپن فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ بچے روزانہ کم ازکم دس گھنٹے کام کرتے ہیں اور انہیں یومیہ تقریباﹰ صرف 80 سینٹ مزدروی ملتی ہے۔
تصویر: imago/Eastnews
سستی مزدروی
بھارتی حکومت کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق جنوبی ایشیا کے اس اہم ملک میں 12.6 ملین بچے چائلڈ لیبر کرتے ہیں۔ یہ بچے سڑکوں میں ٹھیلے لگانے کے علاوہ درزی، باورچی خانوں، ریستورانوں میں صفائی ستھرائی اور وزن اٹھانے کے علاوہ بھٹیوں میں بھی کام کرتے ہیں۔ بالغوں کے مقابلے میں ان بچوں کو اجرت بھی کم دی جاتی ہے یعنی اگر ایک کام کے ایک بالغ کو ایک روپے ملتے ہیں تو اسی کام کے ایک بچے کو 33 پیسے دیے جاتے ہیں۔
تصویر: imago/imagebroker
غیر انسانی حالات
عالمی ادارہ محنت کی 2013ء کی سالانہ رپورٹ کے مطابق چائلد لیبر کرنے والوں میں سے پچاس فیصد سے زائد کو انتہائی برے حالات کا سامنا ہوتا ہے۔ انہیں رات گئے تک لمبے اوقات تک کام کرنا پڑتا ہے۔ ان میں سے بہت سے بچے بغیر کسی کانٹریکٹ اور ملازمین کو ملنے والے فوائد کے بغیر ہی مزدوری کرتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
بنگلہ دیش کی مصنوعات
بنگلہ دیش میں بھی چائلد لیبر کی شرح انتہائی بلند ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کے مطابق جنوبی ایشیا کی اس ریاست میں تقریباﹰ پانچ ملین بچے ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ ہے۔ انتہائی برے حالات میں تیار کیے جانے والے یہ کپڑے ترقی یافتہ ممالک میں فروخت کیے جاتے ہیں۔
تصویر: imago/Michael Westermann
ایک بڑے شہر میں تنہا
کمبوڈیا میں اسکول جانے والے بچوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ وہاں زیادہ تر بچے اپنے والدین کے ساتھ کام کرتے ہیں جبکہ ہزاروں بچے سڑکوں پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ مثال کے طور پر دارالحکومت پنوم پن میں اس بچی کو اپنی کفالت خود ہی کرنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
فہرست طویل ہے
اگرچہ 2000ء کے بعد عالمی سطح پر مشقت کرنے والوں بچوں کی تعداد کم ہوئی ہے تاہم کئی ایشیائی ممالک بالخصوص بنگلہ دیش، افغانستان، نیپال، کمبوڈیا اور میانمار میں ان معصوم بچوں کی صورتحال تاحال خستہ ہی ہے۔