1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کملا ہیرس ایران سے کیسے نمٹیں گی؟

26 جولائی 2024

اگر امریکی نائب صدر کملا ہیرس کو ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار نامزد کیا جاتا ہے اور وہ الیکشن جیت جاتی ہیں تو خواتین کے حقوق اور تہران کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام ان کی ایران پالیسی کے اہم نکات ہونے کا امکان ہے۔

کملا ہیرس ایران کے ساتھ تنازعات کو کم کرنے کی پالیسی اپنا سکتی ہیں
کملا ہیرس ایران کے ساتھ تنازعات کو کم کرنے کی پالیسی اپنا سکتی ہیںتصویر: Erin Schaff/The New York Times/AP/picture alliance

صدر جو بائیڈن کے امریکی صدارتی انتخابات سے دست برداری کے بعد نائب صدر کملا ہیرس کو آنے والے ہفتوں میں ڈیموکریٹ امیدوار کے طورپر نامزد کیے جانے کی توقع ہے۔ اور اگر وہ صدارتی انتخابات جیت جاتی ہیں تو کلیدی امور پر وہ بڑی حد تک بائیڈن کی ہی خارجہ پالیسی پر عمل جاری رکھیں گی۔

امریکہ کے یونیورسٹی آف ساوتھ فلوریڈا میں لکچرر اور بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار ارمان محمودیان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، "ہیرس ایران کے ساتھ تنازعات کو کم کرنے کی پالیسی اپنا سکتی ہیں۔ اگر کوئی نیا جوہری معاہدہ نہیں بھی ہوسکا تو کم از کم کسی ایسے معاہدے یا مفاہمت تک پہنچنے کی کوشش کریں گی جس سے ایران کے جوہری ہتھیاروں کی تیاری پر روک لگ سکے۔"

امریکہ سے براہ راست مذاکرات ممکن ہیں، اعلیٰ ایرانی عہدیدار

ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کی جائیں گی، امریکہ

انہوں نے مزید کہا،"دوسری طرف ہیرس ایران کے حوالے سے انسانی حقوق پر مبنی نئی پالیسیاں تیار کرنے میں بھی دلچسپی رکھتی ہے اور خاص طور پر خواتین کے حقوق کو بہتر بنانا چاہتی ہیں۔ یہ دونوں طرح کی اپروچ ان کی ایران پالیسی کو موثر طورپر آگے بڑھانے کے لیے چیلنجنگ بناتا ہے۔"

کملا ہیرس نے مظاہرین کے خلاف ایرانی حکام کے سخت سلوک کی مذمت کی تھیتصویر: Allison Bailey/NurPhoto/picture alliance

ایران میں خواتین کے حقوق کے شانہ بہ شانہ

کملا ہیرس نے نائب صدر کے طورپر کئی مرتبہ ایرانی شہریوں اور معروف شخصیات کے ساتھ ملاقاتیں کی ہیں۔ ان میں اکتوبر 2022 میں ایران میں ملک گیر"عورت، زندگی، آزادی" احتجاج کے دوران ایرانی نژاد اداکارہ نازنین بنیادی شامل ہیں۔

کملا ہیرس نے مظاہرین کے خلاف ایرانی حکام کے سخت سلوک کی مذمت کی تھی۔

انہوں نے نومبر 2022 میں کہا تھا،"امریکہ ایران کی بہادر خواتین کے ساتھ کھڑا ہے کیونکہ وہ اپنے بنیادی حقوق اور بنیادی انسانی وقار کے لیے پرامن احتجاج کررہی ہیں۔"

ہیرس نے ایرانی خواتین کے اس مطالبے کی بھی حمایت کی کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو اقوام متحدہ کی خواتین کمیشن سے خارج کردیا جائے۔

یہ کمیشن صنفی مساوات کے حوالے سے اقوام متحدہ کا اعلیٰ ترین ادارہ ہے۔ اس کمیشن میں ایران کے انتخاب نے خواتین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ابتداء سے ہی ناراض کیا۔

ایران کی نوبل امن انعام یافتہ نرگس محمدی نے اپریل 2021 میں ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا تھا،" اگر بین الاقوامی ادارے چاہتے ہیں کہ لوگ ان کو سنجیدگی سے لیں تو ان اداروں کو خود سنجیدہ رویہ اپنانا ہوگا۔"

نرگس محمدی کے شوہر تقی رحمانی کا کہنا ہے کہ کملا ہیرس ایرانی خواتین کے مزید مطالبات کی حمایت کرسکتی ہیں۔

تقی رحمانی ایک مصنف اور سیاسی صحافی ہیں اور ایران چھوڑ کر پیرس میں اپنے بچوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔جبکہ نرگس محمدی متعدد الزامات کے تحت تہران کے بدنام زمانہ ایون جیل میں ہیں۔

تقی رحمانی کے مطابق نرگس بین الاقوامی سطح پر صنفی امتیاز کو مجرمانہ جرم قرار دینے کا مطالبہ کررہی ہیں اور "ہیرس اس مطالبے کی حمایت کرسکتی ہیں۔ا گر وہ امریکہ کی پہلی خاتون صدر بنیں تو وہ ایران میں خواتین کی تحریک کی حمایت کرسکتی ہیں۔"

ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات فی الحال تعطل کا شکار ہیںتصویر: EU Delegation in Vienna/Handout/AFP

ایران کے ساتھ جوہری مسئلہ

کملا ہیرس نے ایران کے جوہری پروگرام کے متعلق سن 2015 میں ایران کے طے پانے والے مشترکہ جامع منصوبہ عمل (جے سی پی او اے) کے نام سے معروف جوہری معاہدے کا مسلسل دفاع کیا ہے۔ وہ اسے براک اوبامہ کے دور صدارت میں ڈیموکریٹک پارٹی کی ایک اہم کامیابی قرار دیتی ہیں۔

امریکہ کے ساتھ بالواسطہ جوہری مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے، ایرانی وزیر

امریکہ ایران معاہدہ: منجمد اثاثوں میں سے چھ بلین ڈالر ایران کو ملیں گے

بارہ سال کی بین الاقوامی کوششوں کے بعد طے پانے والے معاہدے سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے سن 2018 میں امریکہ کو یک طرفہ طورپر الگ کرلیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے پیش رو اوبامہ سے "زیادہ بہتر معاہدہ "طے کرسکتے ہیں۔

تاہم ایران پر زیادہ سے زیادہ دباو ڈالنے کی ٹرمپ کی پالیسی ناکام ثابت ہوئی۔ امریکہ کے معاہدے سے الگ ہونے کے ایک سال بعد ایران نے بھی خود کو معاہدے سے آزاد کرلیا۔ اور آج ایران جوہری بم بنانے کے قریب پہنچ چکا ہے۔

پچھلے چار سال کے دوران صدر بائیڈن نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی متعدد کوششیں کیں لیکن یہ تمام کوششیں ناکام رہیں۔

ایرانی امور کے ماہر محمود یان کا خیال ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کشیدگی کو کم کرنے اور پابندیوں کے دباو کو کم کرنے میں دلچسپی تو رکھتا ہے لیکن ملکی سیاست پر سمجھوتہ نہ کرنے کے سلسلے میں سخت ہے۔ کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ اگر سمجھوتہ کرلیا تو مزید مطالبات سامنے آئیں گے اور ایران کو مزید چیلنج کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا،"میرا خیال ہے کہ ہیرس کے پاس جوہری پالیسی کے حوالے سے ایران کے ساتھ ایک نیا معاہدہ یا افہام و تفہیم تک پہنچنے کا موقع ہے لیکن کئی وجوہات کی بناپر اس تک پہنچنے کا راستہ صدر اوبامہ کے راستے سے بھی زیادہ مشکل ہو سکتا ہے۔"

ج ا/ ص ز(شبنم وان ہیئن)

اصل مضمون جرمن زبان میں لکھا گیا۔

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں