کمیاب ارضیاتی عناصر کیا ہیں اور وہ انتہائی اہم کیوں ہیں؟
26 اکتوبر 2025
کمیاب ارضیاتی عناصر، جنہیں کمیاب ارضیاتی دھاتیں بھی کہا جاتا ہے، 17 کیمیائی عناصر پر مشتمل ایک ایسا گروپ ہے، جو جدید ٹیکنالوجی کی بہت اہم مصنوعات کی تیاری میں اکثر چھوٹا کردار ادا کرتا ہے، مگر جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ اسمارٹ فونز، فلیٹ اسکرین ٹیلی وژنز، ڈیجیٹل کیمروں اور ایل ای ڈیز تک کی تیاری میں یہ سب عناصر انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسے عناصر کا ایک انتہائی اہم استعمال مستقل مقناطیسی مصنوعات یا permanent magnets کی تیاری میں بھی کیا جاتا ہے۔
لیتھیم کی پیداوار، سعودی عرب کی چلی میں سرمایہ کاری کی خواہش
مستقل مقناطیس اتنے طاقت ور ہوتے ہیں کہ ان کی مدد سے تیار کیے گئے پرزے عشروں تک اپنے مقناطیسی خواص قائم رکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کمیاب ارضیاتی عناصر سے تیار کردہ مستقل مقناطیس ان مقناطیسوں سے بہت چھوٹے اور وزن میں بہت کم بھی ہوتے ہیں، جو آج کل عام دستیاب ہیں اورکمیاب ارضیاتی عناصر کے بجائے دیگر عناصر سے تیار کیے جاتے ہیں۔ اسی لیے ایسے مقناطیس الیکٹرک گاڑیوں اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے ونڈ ٹربائنز کی تیاری میں تو ناگزیر سمجھے جاتے ہیں۔
کمیاب ارضیاتی عناصر کا متنوع استعمال
کمیاب ارضیاتی عناصر یا rare earth elements، جنہیں مختصراﹰ RREs بھی کہا جاتا ہے، کا جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کردہ مصنوعات میں استعمال وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ عناصر دفاعی ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی بہت سی مصنوعات کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں، جنگی طیاروں سے لے کر آبدوزوں تک کی تیاری میں بھی۔
ان عناصر کی اسٹریٹیجک اہمیت بھی انہیں تجارتی اور دفاعی شعبوں کے لیے انتہائی اہم بناتی ہے۔ مثلاﹰ نیوڈیمیم اور پراسیوڈیمیم، جو کہ مستقل مقناطیسوں کی تیاری میں استعمال ہونے والے کمیاب ارضیاتی عناصر میں سے اہم ترین ہیں، اتنے قیمتی ہیں کہ ان کی موجودہ فی کلوگرام قیمت 55 یورو یا تقریباﹰ 62 امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے۔ انہی عناصر میں سے ٹیربیم کی فی کلوگرام قیمت تو 850 یورو تک ہو سکتی ہے۔
چینی امریکی تجارتی جنگ میں نایاب زمینی دھاتیں کلیدی ’ہتھیار‘
کمیاب ارضیاتی عناصر آتے کہاں سے ہیں؟
ان 17 کیمیائی عناصر کا پورا گروپ واقعی اتنا کمیاب نہیں ہے، جتنا کہ ان کا اجتماعی نام ظاہر کرتا ہے۔ انتہائی معمولی مقدار میں تو یہ عناصر دنیا میں تقریباﹰ ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ لیکن کچھ عناصر ایسے بھی ہیں، جن کی بہت بڑی مقدار دنیا میں صرف چند گنے چنے خطوں میں ہی پائی جاتی ہے۔
ایسے عناصر کے حوالے سے بڑا چیلنج ان کی ایسے علاقوں میں تلاش اور پھر دریافت ہے، جہاں وہ بہت بڑی مقدار میں پائے جاتے ہوں اور جہاں سے انہیں صنعتی پیمانے پر نکالنا مالیاتی حوالے سے قابل عمل اور فائدے مند بھی ہو۔
امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں کمیاب ارضیاتی عناصر کا تقریباﹰ 70 فیصد حصہ چین میں کان کنی کر کے نکالا جاتا ہے۔ چین میں بھی ان عناصر کی بہت بڑی اکثریت ملک کے شمال میں واقع بایان اوبی نامی کان سے نکالی جاتی ہے۔
سربیا سے یورپی یونین کو لیتھیم کی فراہمی کا معاہدہ
چین میں ان کمیاب ذخائر کا حجم اتنا زیادہ ہے کہ وہ پوری دنیا میں چین کے بعد دو دیگر سب سے بڑے ذخائر، آسٹریلیا میں ماؤنٹ ویلڈ اور گرین لینڈ میں کوانے فیلڈ، کے مجموعے سے بھی زیادہ بنتا ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ چین میں ان تمام کمیاب ارضیاتی عناصر کی بہت بڑی مقدار پائی جاتی ہے، جو اب تک مستقل مقناطیس بنانے میں استعمال ہوتے ہیں۔
ایسے کمیاب عناصر کی پروسیسنگ کا طریقہ کار
زیادہ تر کان کنی کے بعد ایسے کمیاب ارضیاتی عناصر کو جب زمین سے نکالا جاتا ہے، تو وہ ایک انتہائی اسپیشل صنعتی کیمیائی عمل سے گزارے جاتے ہیں۔ اس عمل کے دوران ان کی خام اور ناخالص حالت کو کیمیائی علیحدگی اور مادی نفاست کے مراحل سے گزار کر انہیں قابل استعمال مرکبات میں بدلا جاتا ہے۔
یہ سارا کیمیائی عمل بھی چین میں ہی مکمل کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین دنیا کو نہ صرف سب سے زیادہ کمیاب ارضیاتی عناصر مہیا کرتا ہے بلکہ عملی طور پر سب سے زیادہ مستقل مقناطیس بھی۔
کمیاب ارضیاتی عناصر یا آر ای ایز (REEs) کے شعبے میں چین کی یہ اجارہ داری ان عناصر میں سے چند مخصوص اقسام کے باعث تو اور زیادہ طاقت ور ہو جاتی ہے۔ ان اقسام کو ہلکی، درمیانی اور بھاری اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے، جس کی بنیاد ان کی اٹامک ویلیو کو بنایا گیا۔
یورپی یونین کا انحصار کس پر؟
کمیاب ارضیاتی عناصر کی ان تینوں اقسام میں سے ہلکی قسمیں عموماﹰ کم قدر کی حامل ہوتی ہیں اور زمین سے مقابلتاﹰ آسانی سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ ایسے عناصر میں سے مستقل مقناطیسوں کی تیاری میں استعمال ہونے والے نیوڈیمیم اور پراسیوڈیمیم کی اعلیٰ حیثیت ان کی قدر و قیمت کی بنیاد پر استثنائی ہے۔
’سفید سونا‘ الیکٹرک گاڑیوں کے لیے کتنا ضروری؟
جہاں تک یورپی یونین میں ایسے عناصر کے صنعتی پیداواری استعمال کا تعلق ہے، تو یونین کو سپلائی کیے جانے والے اس گروپ کے عناصر کا 80 سے لے کر 100 فیصد تک حصہ چین فراہم کرتا ہے۔
اس کے علاوہ جہاں تک بھاری قسم کے کمیاب ارضیاتی عناصر کا تعلق ہے، تو وہ مقابلتاً کہیں کم مقدار میں پائے جاتے ہیں اور ان کی کیمیائی علیحدگی اور نفاست کا صنعتی عمل بھی انتہائی پیچیدہ اور خاص ہوتا ہے۔ یورپی یونین کے رکن ممالک اپنے ہاں ایسے عناصر کی درآمد کے لیے 100 فیصد انحصار صرف چین پر کرتے ہیں۔
چین نے سپلائی روک دی تو کیا ہو گا؟
کمیاب ارضیاتی عناصر کی دستیابی سے متعلق مستقبل میں بھی چین پر انحصار کا تصور ہی مغربی دنیا کو تشویش میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اس لیے حالیہ برسوں میں امریکہ اور یورپی یونین نے اپنے لیے کمیاب ارضیاتی عناصر اور دیگر انتہائی اہم مادوں کے لیے داخلی سطح پر سپلائی لائن قائم کرنے پر توجہ دینا شروع کر دی۔
اس سلسلے میں یورپی یونین نے 2024ء میں انتہائی اہم خام مادوں سے متعلق ایک قانون بھی منظور کیا تھا، جسے Critical Raw Materials Act کا نام دیا گیا۔ اس قانون کے تحت یونین نے ایسے کمیاب عناصر اور انتہائی اہم مادوں کی اپنے ہاں پیداوار کے کئی اہداف مقرر کر رکھے ہیں۔
اس یورپی قانون کے تحت 2030ء تک ایسے مادوں کی جملہ ضروریات کا ایک خاص حصہ یورپی یونین میں ہی تیار کیا جائے گا۔ اس مقصد کے تحت یونین اپنے رکن ممالک میں باہمی تعاون کو مزید فروغ دینا چاہتی ہے اور یونین سے باہر اپنے قریبی اتحادی ممالک، جیسا کہ ناروے کے ساتھ بھی قریبی اشتراک عمل کی خواہش مند بھی ہے۔
گریفائیٹ پر چین کی اجارہ داری، یورپ مشکل میں
اسی طرح امریکہ میں محکمہ دفاع نے بھی 2020ء سے ملکی کمپنیوں میں اس ارادے سے بھاری سرمایہ کاری شروع کر رکھی ہے کہ 2027ء تک امریکہ میں ایک ایسی داخلی سپلائی چین قائم کی جا سکے، جس کے تحت کمیاب ارضیاتی عناصر کی تیاری کے ''مائن ٹو میگنٹ‘‘ یا ''کان کنی سے لے کر مقناطیس کی تیاری تک‘‘ کے تمام مراحل امریکہ ہی میں مکمل کیے جا سکیں۔
ادارت: کشور مصطفیٰ