کمیاب نسل کے لنگور کو کھا جانے والے چھ اعترافی ملزم گرفتار
28 دسمبر 2018
وسطی ویت نام میں چھ ایسے افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جو بہت کمیاب نسل کے ایک بندر کو مار کر کھا گئے تھے۔ ملزمان نے اپنے اس جرم کی سوشل میڈیا پر لائیو اسٹریمنگ بھی کی تھی۔ اسی وجہ سے یہ چھ مرد پہچانے اور پکڑے بھی گئے۔
اشتہار
ویت نام میں جمعہ اٹھائیس دسمبر کو ہنوئے سے موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک میں ایسے جانوروں کا شکار کرنا، ان کا گوشت کھانا یا ان کی زندہ یا مردہ حالت میں اسمگلنگ جرم ہے، جو بہت کمیاب ہوں یا جن کا وجود ناپید ہو جانے کے خطرے کا شکار ہو۔
اس کے باوجود ویت نام میں وقفے وقفے سے ایسے واقعات کی تصدیق ہوتی رہتی ہے، جن میں ایسے جانوروں کو ہلاک کر دیا جاتا ہے، کیونکہ چند عوامی حلقوں کی رائے میں ایسے جانوروں کا گوشت یا ان کے جسم کے مختلف حصے کئی طرح کے طبی فوائد یا اثرات کے حامل ہوتے ہیں۔
اسی لیے مقامی بلیک مارکیٹ میں ایسے جانوروں کی غیر قانونی تجارت بھی کوئی انوکھی بات نہیں۔ ویت نام میں ایسے جانوروں کا شکار یا تو مقامی افراد کے لیے کیا جاتا ہے یا پھر ہمسایہ ملک چین میں اس کام کے لیے بڑی رقوم پیش کرنے والے ایسے خریداروں کے لیے جو توہم پرستانہ سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔
ایسے ہی ایک تازہ واقعے میں نومبر کی سترہ تاریخ کو 35 سے لے کر 59 برس تک کی عمر کے چھ ویت نامی مردوں نے نہ صرف ناپید ہو جانے کے خطرے کے شکار ایک بندر کو ہلاک کیا اور اس کا گوشت کھایا بلکہ اپنے اس قابل مذمت جرم کی ایک موبائل فون پر فیس بک لائیو کے ذریعے اسٹریمنگ بھی کی۔ اس لائیو ویڈیو میں ان تمام ملزمان کے چہرے بھی دیکھے جا سکتے تھے۔
برفانی بندر، جاپان کے قدرتی حُسن کا حصّہ
میکاک بندروں کا شمار ان چند ممالیہ جانوروں میں کیا جاتا ہے، جو جاپان میں صدیوں سے انسانوں کے ہم زیست ہیں اور انتہائی منفرد برفانی دنیا کی ایک جھلک سے دنیا کو روشناس کرواتے ہیں۔
تصویر: AP
بندروں کا وطن
یامانوچی نامی جاپان کا ایک چھوٹا سا قصبہ اپنے گرم پانی کے تالابوں کے باعث مشہور ہے۔ لیکن اس جگہ کی اصل وجہ شہرت یہاں کا ’جیگو کُدانی سَنو منکی پارک‘ ہے جو دارالحکومت ٹوکیو سے ایک دن کی مسافت پر واقع ہے۔
تصویر: DW/Kai Dambach
برفانی بندروں کی ایک جھلک
یہ پارک انتہائی دلچسپ بندروں کی قسم ، جاپانی میکاک بندروں کی آماجگاہ ہے ۔ گرم پانی کے تالابوں اور جھرنوں میں پڑاؤ ڈالے ان برفانی بندروں کو دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے ہر سال متعدد سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں۔
تصویر: DW/Kai Dambach
سیاحوں کی دلچسپی
اس پارک کی بنیاد سن 1964 میں اس وقت ڈالی گئی جب یہاں کی وادی میں ایک ہوٹل قائم ہوا اور یہاں آنے والوں نے سرخ چہرے والے بندروں کو گرم پانیوں میں آرام کرتے دیکھا۔ اب اس پارک میں سیاح آٹھ سوجاپانی ین یا ساڑھے سات ڈالر کی معمولی داخلہ فیس کے عوض ان بندروں کی دلچسپ حرکات سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
تصویر: DW/Kai Dambach
جھیل کے پانیوں میں آرام
ان برفانی بندروں کو پارک میں موجود گرم پانی کی جھیلوں میں آرام کرنا اور وقت گزارنا بہت پسند ہے۔ ان بندروں کو گرم موسم میں بھی دیکھا جا سکتا ہے لیکن اس وقت یہ ان پانیوں میں کم ہی نظر آتے ہیں۔ گرمیوں میں یہ بندر پورے علاقے میں بکھر جاتے ہیں لیکن ٹھنڈے موسم میں حرارت برقرار رکھنے کے لیے یہ قریب رہتے ہیں۔
تصویر: DW/Kai Dambach
سردی سے بچاؤ
میکاک بندروں کے جسم پر موجود بال انہیں ٹھنڈے موسم میں حرارت پہنچاتے ہیں۔ یہاں تک کہ گرم پانیوں سے دور رہنے پر بھی ان پر سردی زیادہ اثر انداز نہیں ہوتی۔
تصویر: Getty Images
بندر انسانوں کے دوست
برفانی بندروں کا یہ پارک سیاحوں کے لیے نہایت پُر کشش ہے۔ یہاں سیاح ان بندروں کے نہایت قریب آکر ان کے ساتھ تصاویر بھی بناتے ہیں۔ تاہم پارک کے قوانین کے مطابق ان بندروں کو سیاح نہ تو کھانے کے لیے کچھ دے سکتے ہیں اور نہ ہی کھلے عام پلاسٹک بیگ استعمال کر سکتے ہیں۔
تصویر: DW/Kai Dambach
6 تصاویر1 | 6
وسطی ویت نام کے صوبے ہا ٹِنہ میں پولیس نے جمعے کے روز بتایا کہ ان تمام ملزمان کو کئی ہفتوں کی تفتیش اور تلاش کے بعد جمعرات ستائیس دسمبر کو بالآخر گرفتار کر لیا گیا اور انہوں نے اپنے اجتماعی جرم کا اعتراف بھی کر لیا ہے۔
پولیس کی ویب سائٹ پر جاری کردہ ایک بیان کے مطابق ملزمان نے بتایا کہ انہوں نے معدوم ہو جانے کے خطرے کی شکار نسل کے اس بندر کو ایک مقامی شکاری سے 49 امریکی ڈالر کے برابر قیمت کے عوض خریدا تھا۔
یہ بندر مقامی طور پر ’ڈُوک لنگور‘ نسل کا ایک ایسا جانور تھا، جس کی مجموعی آبادی بہت ہی کم رہ گئی ہے اور جو زیادہ تر صرف درختوں کے پتے کھا کر زندہ رہتا ہے۔ یہ جانور، جسے ’سرخ لباس والا لنگور‘ بھی کہا جاتا ہے، بندروں کی انتہائی کمیاب نسلوں میں سے ایک ہے اور پوری دنیا میں صرف شمالی ویت نام کے جنگلوں میں پایا جاتا ہے۔
م م / ا ا / اے ایف پی
حال ہی میں دریافت ہونے والی دس نئی اسپیشیز
کالج برائے ماحولیاتی سائنس اور جنگلات نے دس جانوروں، پودوں اور خردحیات کی فہرست جاری کی ہے، جنہیں حال ہی میں دنیا کے مختلف مقامات میں دریافت کیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Sunbin Huang/Mingyi Tian/ESF International Institute for Species Exploration/dpa
منفرد بندر کی الگ تھلگ بستی
انڈونشیا میں سن 2001 میں سماٹرا کے خطے میں اورانگوٹان اور بورنیو بندروں کو دو الگ الگ اسپیشیز قرار دیا تھا مگر اب محققین نے ایک اور نوع دریافت کی ہے، جسے تاپانولی اورانگوٹان کہا جا رہا ہے۔ یہ بندر سماٹرا کے جنوبی حصے میں رہ رہے ہیں۔ محققین کے مطابق ان کی بستی قریب آٹھ سو بندروں پر مشتمل ہے۔
چالیس میٹر یا 130 فٹ اونچا یہ درخت قریب چھپن ہزار کلوگرام وزنی ہے۔ یہ عظیم الحبثہ درخت دینیزیا خوئیرینا فاکاؤ برازیل کے علاقے ایسپیریتو سانتو کے شمالی اٹلانٹک جنگلات سے ملا ہے۔ اس طرف فقط 25 درخت موجود ہیں اور انہیں بقا کے انتہائی خطرے کی شکار نوع حیات میں رکھا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ESF International Institute for Species Exploration/Gwilym P. Lewis
ایک کیڑا کوسٹا ریکا کی چیونٹی کی طرح
یہ نہایت چھوٹا کیڑا نیمپہسٹر کروناؤری کوسٹ ریکا میں چیونٹیوں کے درمیان رہتا ہے۔ یہ کیڑا صرف ایک اعشاریہ پانچ ملی میٹر بڑا ہے۔ اس کا حجم، جسامت اور رنگت کسی مزدور چیونٹی کی طرح ہے۔ جب مقامی چیونٹی کسی اور جگہ منتقل ہوتی ہے، تو یہ کیڑا بھی اس کے ساتھ جگہ بدل لیتا ہے۔ یہ کیڑا اپنے منہ سے چیونٹی کے پیٹ سے چپک جاتا ہے اور بغیر قدم اٹھائے سارا فاصلہ طے کر لیتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ESF International Institute for Species Exploration/D. Kronauer
سب سے زیادہ گہرائی میں رہنے والی مچھلی
مغربی بحرالکاہل میں ماریانا کی سمندری گھاٹی سب سے گہرا سمندری علاقہ ہے۔ یہیں پر سوڈولیپیرس سویرائی نامی یہ مچھلی رہتی ہے۔ بہت چھوٹی سی یہ مچھلی سنیل فش خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور یہ صرف 12 سینٹی میٹر لمبی ہے۔ اس سے زیادہ گہرائی پر اب تک کوئی مچھلی دریافت نہیں کی گئی تھی۔ یہ مچھلی سات سے آٹھ ہزار میٹر گہرائی میں رہتی ہے۔
تصویر: ESF International Institute for Species Exploration/Mackenzie Gerringer
فنگس کے ساتھ جوڑا بنانے والا پودا
زیادہ تر پودے سورج کی روشنی کی بنا پر فوٹوسینتھیسیس عمل کے ذریعے اپنی غذا تیار کرتا ہے۔ مگر حال میں دریافت کیا جانے والے یہ ایس سوگیموتوئی نامی یہ پودا ان نباتات میں شامل ہے، جو اپنی غذایت دیگر حیات سے حاصل کرتے ہیں۔ یہ پودا فنگس کو نقصان پہنچائے بغیر اس سے اپنی غذا حاصل کر لیتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ESF International Institute for Species Exploration/Takaomi Sugimoto
انتہائی سرد پانی کی چمکدار جھینگا نما
پانچ سینٹی میٹر جسامت کی یہ غیر فقاریہ جھینگا نما بحر جنوبی کے انتہائی سرد پانیوں میں بستی ہے۔ اس کا نام اپیمیریا کواسیمودو ہے۔ اس سے قبل اس حیات سے ہم واقف نہیں تھے۔
تصویر: picture-alliance/ESF International Institute for Species Exploration/Cédric d’Udekem d’Acoz
بالوں کی طرح نظر آنے والا بیکٹیریم
کاناری جزیرے میں جب زیرسمندر آتش فشاں پھٹا تو وہاں پائی جانے والی بیشتر سمندری حیات مٹ گئی۔ مگر سائنس دانوں نے سمندر میں خرد حیات کی پہلی بستیاں دریافت کی ہیں۔ تھیولاوا وینریس، پروٹیو بیکٹیریا کی ایک نئی نوع دریافت کی گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/ESF International Institute for Species Exploration/Miquel Canals
مارسوپیال شیر کا ڈھانچا
آسٹریلیا کے کوئنز لینڈ خطے میں سائنس دانوں نے یہ 23 ملین سال پرانا ڈھانچا دریافت کیا ہے۔ یہ ڈھانچا مارسوپیال نما شیر کا ہے۔ اس کی جسامت سربیا کے ہسکی کتے جتنے ہے اور یہ زیادہ تر وقت درختوں میں گزارتا تھا۔ اس کے دانت بتاتے ہیں کہ یہ فقط گوشت پر انحصار نہیں کرتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/ESF International Institute for Species Exploration/Peter Schouten
یک خلوی حیات
کیلی فورنیا کے ایکویریم میں یہ یک خلوی حیات دریافت کی گئی ہے۔ پروٹسٹ سین ڈیاگو کے علاقے میں برائن کورل سے دریافت کی گئی ہے۔ اس حیات کا جغرافیائی ماخذ اب تک دریافت نہیں ہو سکا ہے۔
تصویر: ESF International Institute for Species Exploration/ Denis V. Tiknonenkov
چینی غاروں میں رہنے والا کیڑا
ٹروگلوبیٹک اسپیشیز سے تعلق رکھنے والا یہ شوئیڈیٹس بیلُس بیٹل کی ایک نئی نوع ہے۔ یہ غاروں میں انتہائی تاریک حصوں میں رہتا ہے۔ یہ کیڑا صرف نو ملی میٹر تک کی جسامت کا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Sunbin Huang/Mingyi Tian/ESF International Institute for Species Exploration/dpa