کم از کم 74 مہاجرین لیبیاکے ساحل کے قریب بحیرہ روم میں غرقاب
13 نومبر 2020
اقوام متحدہ کے ادارے بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرین(آئی او ایم) کا کہنا ہے کہ لیبیا کے ساحل کے قریب بحیرہ روم میں ایک کشتی ڈوب جانے سے کم از کم 74 مہاجرین ہلاک ہوگئے۔
اشتہار
اس کشتی پر 120 سے زیادہ مہاجرین سوار تھے۔ یہ حادثہ جمعرات کے روزپیش آیا۔ لاشوں کی تلاش کی کوششیں اب بھی جاری ہیں۔ اس دوران اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ اکتوبر کے بعد سے ہجرت کرنے والوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔
آئی او ایم نے بتایا کہ رپورٹوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ مہاجرین کی اس کشتی پر خواتین اور بچوں سمیت 120 سے زیادہ افرا سوار تھے۔ کوسٹ گارڈ کے عملے اور ماہی گیر47 افراد کو ساحل تک لانے میں کامیاب رہے جبکہ اب تک 31 لاشیں برآمد ہوچکی ہیں۔
آئی او ایم نے بتایا کہ بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتی کی غرقابی کا یہ تازہ ترین واقعہ ہے۔ تنظیم نے کہا کہ اکتوبر کے اوائل سے وسطی بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیوں کے ڈوبنے کے اب تک کم از کم آٹھ واقعات پیش آچکے ہیں۔
آئی او ایم کے مطابق اس سال بحیرہ روم میں اب تک کم از کم 900 افراد ڈوب چکے ہیں، جبکہ 11000 سے زائد دیگر کو جنگ زدہ لیبیا واپس بھیجا جاچکا ہے جہاں، اقوام متحدہ کے مطابق، انہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، قید، استحصال، بردہ فروشی اور مختلف نوعیت کی زیادتیوں کا سامنا ہے۔
سمندر کی آغوش میں موت تارکینِ وطن کی منتظر
مہاجرین کا بُحیرہ روم کے راستے یورپ کی جانب سفر دن بدن خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ سمندر میں ڈوبتے تارکین وطن کو بچانے والی امدادی تنظیمیں لیبیا پر اس حوالے سے معاونت کرنے میں ناکامی کا الزام عائد کرتی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Medina
ڈرامائی واقعہ
اس تصویر میں ایک مہاجر خاتون اور ایک بچے کی لاشیں ڈوبنے والی کشتی کے شکستہ ڈھانچے کے درمیان تیر رہی ہیں۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن برائے مہاجرت کے اطالوی دفتر کے ترجمان فلاویو ڈی جیاکومو نے اسے ’ڈرامائی واقعہ‘ قرار دیا۔
تصویر: Reuters/J. Medina
صدمے کے زیر اثر
یہ مہاجر خاتون ڈوبنے سے بچ گئی تھی۔ ایک غیر سرکاری ہسپانوی این جی او’ پرو آکٹیوا اوپن آرمز‘ کے عملے نے اس خاتون کو بچانے کے لیے امدادی کارروائی کی اور پھر اپنے جہاز پر لے آئے۔ اس خاتون کو غالباﹰ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے سمندر ہی میں چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ واپس لیبیا نہیں جانا چاہتی تھی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
کمپیوٹر اسکرین پر کشتی کی تلاش
جہاز کے کپتان مارک رائگ سرے اوس اور آپریشنل مینیجر انابل مونٹیس سمندر میں موجود کسی کشتی کے مقام کا تعین کر رہے ہیں۔ پرو آکٹیوا اوپن آرمز کے عملے کے ارکان کے خیال میں یہ مہاجرین کی کشتی بھی ہو سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Medina
تباہ حال کشتی سے لپٹی خاتون
امدادی کارکن ایستھر کامپس سمندر میں ایسے مہاجرین کو ایک بہت بڑی دور بین کے ذریعے تلاش کر رہی ہیں جنہیں مدد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ گزشتہ ہفتے اس امدادی بحری جہاز کے عملے نے ایک تباہ حال کشتی سے لپٹی ہوئی ایک تارک وطن خاتون کو بچایا تھا۔ تاہم ایک اور خاتون اور بچے تک مدد پہنچنے میں دیر ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
لیبیا واپس نہیں جانا
جہاز کے عملے نے تصویر میں نظر آنے والی دو لاشوں کو پلاسٹک میں لپیٹ دیا ہے۔ پرو آکٹیوا کے بانی آسکر کامپس نے ایک ٹویٹ پیغام میں لکھا،’’ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے بتایا ہے کہ انہوں نے ایک سو اٹھاون مہاجرین سے بھری ایک کشتی کا راستہ روکا تھا۔ لیکن جو نہیں بتایا وہ یہ تھا کہ انہوں نے دو عورتوں اور ایک بچے کو کشتی ہی پر چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ لیبیا واپس نہیں جانا چاہتی تھیں اور وہ کشتی ڈوب گئی۔‘‘
تصویر: Reuters/J. Medina
اسپین کی طرف سفر
امدادی کارروائی کے بعد پروآکٹیوا کا ’آسترال‘ نامی جہاز اب اسپین کی ایک بندرگاہ کی جانب رواں دواں ہے۔
تصویر: Reuters/J. Medina
6 تصاویر1 | 6
لیبیا میں آئی او ایم مشن کے سربراہ فیڈریکو سوڈا کا کہنا ہے کہ ”بحیرہ روم میں انسانی جانوں کے اتلاف میں مسلسل اضافہ، دنیا کے ہلاکت خیز سمندری راستوں میں سے ایک میں خصوصی تلاشی اور بچاو کی صلاحیت میں اضافہ کی انتہائی اور فوری ضرورت کے تئیں ملکوں کی جانب سے فیصلہ کن اقدامات کی عدم صلاحیت کا سبب ہے۔
2011میں انقلاب کے بعد لیبیا کے آمر معمر قذافی کی برطرفی اور قتل کے بعد سے ہی لیبیا افریقی اور مشرق وسطی کے ملکوں سے مہاجرین کے یورپ کی جانب ہجرت کرنے کے لیے ایک اہم مرکز بنا ہوا ہے۔
بردہ فروش یورپ ہجرت کرنے کے خواہش مند پریشان حال کنبوں کو اکثر گھٹیا قسم کے ربر کی کشیوں پر سوار کرکے بحیرہ روم میں چھوڑ دیتے ہیں۔ جہاں ان کی زندگی کوسٹ گارڈ، ماہی گیروں اور مہاجرین کو بچانے کے لیے وقف غیر حکومتی تنظیموں کے رحم و کرم پر منحصر کرتی ہے۔
آئی او ایم کے اعداد و شمار کے مطابق 2014 سے بحیرہ روم میں اب تک کم از کم 20000 مہاجرین ہلاک ہوچکے ہیں۔